جب سے پانامہ، ڈان لیکس وغیرہ کا دور شروع ہوا ہے ملک میں مسلسل سیاسی بھونچال آ رہے ہیں اگر بڑے بھونچال رکتے ہیں تو آفٹر شاک چلتے رہتے ہیں۔ بھلے وہ اپوزیشن ہو یا حکومت سب اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ملک کا سیاسی منظر نامہ بدلنے کی رفتار دیکھ کر بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ: ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں پانامہ سے شروع ہونے والا ہنگامہ کئی مراحل سے گزر چکا ہے اور اب شاید اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کا فیصلہ کسی بھی وقت متوقع ہے۔اس مقدمے کی شنوائی میں سوائے میاں نواز شریف کے قطری خط اور اپنے بچوں کے لندن میںکاروبار سے اعلان لا تعلقی کے کوئی نئی دلیل یا ثبوت کم از کم ملزمان کی جانب سے دیکھنے کو نہیں ملا۔ سپریم کورٹ میں بغیر منی ٹریل کے جو دلائل دیئے گئے تھے وہی تقریباً دہرائے جا رہے ہیں۔نتیجہ کیا ہو گا یہ عدالت پر منحصر ہے لیکن ان فیصلوں کے نتیجے میں ایک اور سیاسی طوفان ضرور برپا ہو گا۔ اسکے اثرات کس قسم کے ہونگے ، خاص طور پر مسلم لیگ (ن) جو پہلے ہی کافی مشکلات کا شکار ہے اس فیصلے کے نتیجے میں مزید مسائل کا شکار ہو سکتی ہے۔ اگر فیصلہ وہی ہوتا ہے جو اس سے پہلے سپریم کورٹ اور محترم جج محمد بشیر دے چکے ہیں تو بہت جلد اسکے سیاسی اثرات فوری ظاہر ہو جائیں گے۔ اگران مقدمات کا فیصلہ میاں نواز شریف کے حق میں جاتا ہے اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں بھی ریلیف مل جاتا ہے تو اسکے نتیجے میں مریم صفدر جو اس وقت چپ سادھے ہوئے ہیں وہ دوبارہ متحرک ہو جائیں گی۔ اور انکا فعال ہونا ایک غیر معمولی واقعہ ہو گا۔ کیونکہ جس قسم کا اثر و رسوخ ان کا ملکی معاملات میں میاں نوازشریف پرنظر آیا، اس کے نتیجے میں انکی سوچ قومی اداروں کے حوالے سے بری طرح متاثر ہوئی ۔ وہ نہ صرف ان اداروں کے خلاف کھل کر الزام تراشی کرتے رہے بلکہ براہ راست ٹکر لیتے نظر آئے۔ڈان لیکس کے حوالے سے مریم صفدر پر سنگین الزام تراشی ہوتی رہی۔ ان پر اس سارے معاملے کو ماسٹرمائنڈ کرنے کا الزام بھی لگا۔ یہ اگر درست نہ بھی ہو تو یہ بات ایک کھلا راز ہے کہ میاں نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑا کرنے میں مریم کا بہت اہم رول رہا ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں پرویز رشید بھی ذمہ دار ٹھہرائے جاتے ہیں لیکن سعودی عرب میں جلا وطنی کے دوران جس طرح سے influence مریم صفدر اپنے والد کو کر چکی تھیں کسی اور پر بھلے الزام لگائیں لیکن میاں نواز شریف پوری طرح اپنی بیٹی کے اثر میں ہیں۔ مریم صفدر کا فعال ہونا غیر معمولی واقعہ اس لئے ہو گا کہ انکی سوچ اپنی جگہ لیکن اسکا اطلاق میاں نواز شریف کے ذریعے ہونا تھا ۔ممکن ہے میاں صاحب بعض مشوروں پر مریم صفدر سے متفق نہ ہوتے ہوں ‘اس لئے اس شدت سے ملکی اداروں کے خلاف مہم جوئی نہ ہو پائی جو اصل پلان تھا۔ جب مریم صفدر تمام الزامات سے بری ہو کر مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنبھالیں گی تو پھر وہ اپنے ایجنڈے پر سو فیصد عملدرآمد کی اہل ہونگی۔گزشتہ دو سال کے دوران انہوں نے جس قسم کے مسائل کا سامنا کیا ہے، اگر یہ کہیں کہ وہ سیاسی طور پر عرش سے فرش پر آ گئی ہیںبے جا نہ ہو گا۔ اس صورتحال سے گزرنے ، والدہ کی وفات اور جیل میں گزرے وقت سے انہوں نے کیا سیکھا ہے اس پر انکا آئندہ رویہ منحصر ہے۔کیا انکی طبیعت میں ٹھہرائو آیا ہے اور وہ اداروں کے خلاف اپنے غصے پر قابو پا چکی ہیںیا وہ پہلے سے بھی سوا ہو گیا ہے؟ کیا وہ زمینی حقائق سے آگاہی کے حوالے سے اپنی سوچ کی تعمیر کر پائی ہیں یا قدم بڑھائو کے نعرے اب بھی انہیں متاثر کرتے ہیں ؟ جس جمہوریت اور ووٹ کی عزت کا خیال انہیں میاں نواز شریف کے اقتدار جانے کے بعد آیاوہ اس نعرے پر ابھی بھی دل و جان سے قائم ہیں؟کیا ان کی مشاورت کا دائرہ کار پرانا ہے یا انہوں نے کوئی نئی ٹیم تشکیل کر لی ہے یا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟ دور کی کوڑی ہے لیکن یہ سب کچھ ہونا ممکنات میں ہے۔ بھلے این آر او کی صورت میں ہو جس کی افواہیں اس دن سے شروع ہیں جب سے میاں نوازشریف اور مریم صفدر نے چپ سادھی ہے یا پھر عدالت انکے خلاف مقدمات میں کوئی اور نقطہء نظر اختیار کرے جو کہ یقینا قانونی ہو گا اور انہی حقائق اور شواہد کی بنیاد پر ہو گا جو عدالت کے سامنے ہونگے۔ ایک رکاوٹ بظاہر اس سارے معاملے میں نظر آتی ہے اور وہ میاں شہباز شریف ہیں۔جس طرح وہ قومی اسمبلی میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی لینے پر ڈٹ گئے اور با لآخر حکومت کو انکا مطالبہ ماننا پڑا، اگر اسی طرح وہ زندگی میں پہلی بار اپنے بڑے بھائی کے سامنے پارٹی قیادت نہ چھوڑنے پر بضد ہو گئے تو معاملات خراب ہو سکتے ہیں۔کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ میاں نواز شریف اپنی سیاسی پگ مریم صفدر کے علاوہ کسی کے سر پر رکھنے کو تیار نہیں ہیں۔حتیٰ کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کو قائد حزب اختلاف دل پر پتھر رکھ کر قبول کئے ہوئے ہیں، کو ئی دن جاتا ہے کہ وہ اس فیصلے کو بھی بدل ڈالیں جیسے انہوں نے اپنی نا اہلیت کے بعدشہباز شریف کو نامزد کر کے فیصلہ واپس لے لیا تھا اور شاہد خاقان عباسی کو نامزد کر دیا تھا۔اس بار بھی شنید ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو لاہور سے الیکشن لڑانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ انہیں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنایا جا سکے لیکن انکے خلاف ایل این جی کا سکینڈل قومی احتساب بیورو میں کھل جانے کے بعد ابھی انتظار کیا جا رہا ہے کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ پھر شہباز شریف بھی کافی سنگین الزامات میں نیب کا سامنا کر رہے ہیں جس میں انکی بچت بظاہر نظر نہیں آتی۔ ممکن ہے مریم کے لئے ویسے ہی میدان صاف ہو جائے۔اور پھر سیاسی بھونچال ضرور آئے گا۔