انسان، کہنا چاہیے کہ اپنی نفی خود ہے۔ اپنی شکست کا سارا سامان، اس کے اپنے وجود میں پایا جاتا ہے۔ کسی کا چٹ پٹ ہو جانا، اَوروں پر جیسا بھی گزرے، جانا والے کے لیے، اس سے آسان رخصتی کیا ہو سکتی ہے؟ ہزار افسوس ان پر، جن کی موت، دم بدم ہوتی ہے۔ بزرگ کہہ گئے ہیں یہ دنیا، جائے عبرت ہے۔ اس میں شک ہی کیا؟ کل تک، جن کے نام کے سکے چلتے تھے، آج ان پر، ہوا بھی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ انہی کے جلو میں، پورا کارواں ہوا کرتا تھا۔ ایک اشارہ ٔ ابرو پر، جو حرکت میں آ جاتا تھا اور ایک اشارہ ہی پر تھم جاتا تھا۔ انسان کا سایہ ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن ان کے بیسیوں ہمزاد تھے۔ کیا دیدہ ء عبرت وا کرنے کو، پچھلے ایک سال کا منظر کافی نہیں؟ تْزک و احتشام اور غرور و غرہ، پلک مارتے میں، سب ہوا ہو گئے۔ انسان کی بھی، ساری شیخی اور شوخی، بقول ِشخصے، سیل ِزماں کے ایک تھپیڑے کی مار ہے۔ ہزار بار کا دْہرایا ہوا سبق، سن کر اور پڑھ کر تو کیا، دیکھ کر بھی سمجھ میں نہیں آتا! ذات ِمعبود، جاودانی ہے باقی جو کچھ بھی ہے، وہ فانی ہے ٭٭٭ معاشی بدمعاشی پاکستان کو درپیش مسائل میں، دہشت گردی، اب خاتمے پر ہے۔ چند سال پہلے تک، شاید ہی کوئی ہفتہ گزرتا تھا، جب ملک کے کسی نہ کسی علاقے سے، دہشت گردی کی خبر نہیں آتی تھی۔ الحمدللہ، پہلے کے مقابلے میں، اس قسم کے، اب دس فیصد سے بھی کم واقعات ہوتے ہیں۔ مگر اب ایک اور بہت بڑا ٹنٹا، دیدے پھاڑے، اور راستہ روکے کھڑا ہے! معاشی اعتبار سے، پاکستان کو اتنا کمزور کرنے کی سازش ہوئی ہے کہ موم کی ناک کی طرح، اسے جس رخ چاہے، موڑ دیا جائے۔ امریکی ڈالر کی قیمت، ایک سو پچیس روپے ہوا چاہتی ہے۔ ڈالر کی قدر بڑھی نہیں ہے، بلکہ روپے کی قدر، گھٹتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ سلسلہ، ایک ڈالر کے مقابلے میں، ایک سو پچاس روپے سے کچھ اوپر پہنچ کر رْکے گا۔ لیکن اصل کہانی کی یہ، صرف تمہید ہے! روپے کی بے قدری، اپنے ساتھ مشکلات اور مہنگائی کا، طوفان لے کر آ رہی ہے۔ سارا الزام، سابق حکومت پر دھرنا، شاید مناسب نہ ہو۔ اگر یہ اْسی حکومت کا کیا دھرا ہے، تو باقی سب لوگ کیا کر رہے تھے؟ ملک کو اگر کنویں میں دھکیلا جا رہا تھا، تو روکا کیوں نہ گیا؟ سچ یہ ہے کہ حقیقت از حد پریشان کْن ہے۔ بدعنوانی اور بے ایمانی، ہر طبقے میں، اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ ایک ہی شخص، راشی بھی ہے اور مْرتشی بھی! رشوت دے بھی رہا ہے، اور لے بھی رہا ہے! ایک کی جیب اگر دوسرا کاٹ رہا ہے، تو دوسرے کا ہاتھ، تیسرے کی جیب میں ہے! ع ایک کو ایک، کھائے جاتا ہے نئی حکومت، خدا کرے کہ صرف بانگ ہی بانگ نہ ثابت ہو۔ اور نیت باندھ کر، خشوع و خضوع کے ساتھ، نماز بھی پڑھے! پاکستان کا جوہری پروگرام، ایک مدت سے، دشمنوں کی چھاتی پر مونگ دَل رہا ہے۔ لیکن معاشی اعتبار سے اسے، اگر زیر ِنگیں کر لیا گیا تو پھر ع کہاں کی رباعی، کہاں کی غزل؟ ٭٭٭ اصل اور ترجمہ پچھلے کالم میں، جوش صاحب کے مقولے پر تبصرہ، ادھورا رِہ گیا۔ اسی سلسلے میں، چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ فردوسی کہتا ہے ع چقاچاق ِخنجر، بگردون رسید اب اس چقاچاق کا ترجمہ کیوں کر ہو؟ اسی طرح سودا، غالبا بہار پر، اپنا قصیدہ، یوں شروع کرتے ہیں۔ اٹھ گیا بہمن و دے کا، چمنستان سے عمل تیغ ِاْردی نے کیا، مْلک ِخزاں، مستاصل سودا ہوں یا خود جوش، ایسے زبان آور شاعروں کا کمال، واقعی ترجمہ نہیں ہو سکتا۔ فارسی اور اردو کے سب سے بڑے غزل گو، یعنی حافظ اور میر کی حد تک بھی، یہ بات بہت کچھ درست ہے۔ حافظ کہتے ہیں اے بادشہ ِخوبان! داد از غم ِتنہائی دل بی تو بجان آمد، وقت است کہ باز آئی اس "وقت است" کا جواب بھی ہے؟ میر کہتے ہیں ہائے جوانی! کیا کیا کہیے، شور سروں میں رکھتے تھے اب کیا ہے؟ وہ عہد گیا، وہ موسم، وہ ہنگام گیا سچ یہ ہے کہ "ہائے جوانی! کیا کیا کہیے" کا ٹکڑا، اکثر شاعروں کے دواوین اور کلیات پر بھاری ہے!ا اب ان دو شاعروں کا ذکر ہو جائے، جان کا اول مقصد، کہا جا سکتا ہے کہ پیغام رسانی تھی. یعنی، مولانا روم اور علامہ اقبال! پہلی بار سننے والا، حیرت میں آ جاے گا کہ امریکہ میں، سب سے زیادہ، مشہور اور فروخت ہونے والی شاعری، مولانا کی ہے۔ اسی طرح، اقبال کا اصل کارنامہ، ان کے افکار ہیں، جن کی بدولت، وہ دنیا کے، غالبا، پہلے شاعر ہیں، جنہیں بیک وقت، دنیا کی دو بڑی زبانوں کی، صف ِاول میں جگہ ملی ہے۔ ان دونوں پر جو اعتراض کیے گئے، ان کا شافی اور مْسکِت جواب، مولانا کی ہی زبان سے سنیے۔ من ندانم، فاعلاتْْ فاعلات شعر می گویم، بہِ از آب ِحیات اب آخر میں، اْن دو شاعروں کا ذکر ہو جائے، جن کا کلام، فصاحت اور بلاغت، دونوں کی جان ہے۔ شیخ سعدی کی گلستان کا صرف آدھا لطف، دوسری زبان میں نقل ہو سکا ہے۔ باقی، اور پورا لطف، فارسی ہی میں رہ گیا۔ کہتے ہیں "در عنفوان ِجوانی، چنانکہ اْفتد و دانی" اور ع کآن را کہ خبر شْد، خبرش باز نیامد یعنی جسے خبر ہو گئی، پھر اس کی خبر نہیں آئی۔(بلکہ دلی کے محاورے میں، کہا جا سکتا ہے کہ پھر اْس کی خبر ہی آئی!) یہی حال اکبر الٰہ آبادی کا ہے۔ اردو کے صرف دو شاعر، اکبر اور اقبال ہیں، جن کا کلام، ترجمہ ہو کر بھی، اپنی داد پا لے گا۔ اکبر جب انگریزوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ آپ نے سیکھا ہے، اپنے باپ سے اور، میں نے جو پڑھا، وہ آپ سے تو معانی اپنی داد، غیر زبان میں بھی پا سکتے ہیں۔ لیکن "سیکھنے" کے مقابلے میں "پڑھنے" کا لطف صرف اردو تک محدود ہے۔ اور "باپ" کا قافیہ "آپ"! اس کاٹ کا کوئی ٹھکانا بھی ہے؟