سیالکوٹ میں سپورٹس گارمنٹ فیکٹری کے غیر مسلم سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا پر فیکٹری ورکرز نے مذہبی پوسٹر اتارنے کا الزام لگا کر حملہ کردیا، پریانتھا کمارا جان بچانے کیلئے بالائی منزل پر بھاگے لیکن فیکٹری ورکرز نے پیچھا کیا اور چھت پر گھیر لیا، مار مار کر ادھ موا کردیا، فیکٹری ورکرز منیجر کو مارتے ہوئے نیچے لائے ، اسی پر بس نہ کیا، لاش کو گھسیٹ کر فیکٹری سے باہر چوک پر لے گئے، ڈنڈے مارے، لاتیں ماریں اور پھر آگ لگا دی،انسانیت سوز خونی کھیل کو فیکٹری گارڈز روکنے میں ناکام رہے۔ سیالکوٹ میں انسانیت سوز واقعہ پہلا نہیں ہے، اس سے پہلے اگست2010 ء میں سیالکوٹ کے بٹر گاؤں میں دو سگے بھائیوں 18 سالہ حافظ مغیث اور 15 سالہ مینب کو ڈاکو قرار دے کر ایک مشتعل ہجوم نے ڈنڈے مار کر ہلاک کر دیا تھا اور ان کی لاشیں چوک میں لٹکا دی تھیں،ستمبر 2011 ء میں گجرانوالہ کی انسداد دہشتگردی عدالت نے واقعے میں ملوث 7افراد کو چار چار مرتبہ سزائے موت اور چھ ملزمان کو چار چار بار عمر قید کی سزا سنائی تھی بعد میں سپریم کورٹ نے قتل میں ملوث 7 ملزمان کی سزائے موت 10سال قید میں تبدیل کر دی۔ سیالکوٹ کا موجودہ واقعہ افسوسناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے اس سے اسلام اور پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی ہے، ایسے واقعات سے پاکستانی قوم کا تعارف مہذب نہیں بلکہ غیر مہذب اور جنونی کے طور پر سامنے آ رہا ہے اور غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ماورائے عدالت کسی بھی انسان کا قتل جنگل کے قانون کے مترادف ہے مگر پاکستان میں سب کچھ ہوتا ہے ۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ، وزیر اعظم عمران خان ، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ پریانتھا کمارا کا قتل قابل مذمت اور شرمناک ہے ۔ وزیر اعظم کے نمائندہ برائے بین المذاہب ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی ، معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے کہا کہ ناموس رسالت کی آڑ میں غیر ملکی کو زندہ جلا دینے کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے ، محض الزام کی بنیاد پر قانون ہاتھ میں لینا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ لاش کو جلانے کے بعد جنونی لوگ سیلفیاں بناتے رہے، اس واقعہ سے بہت سے سوالات نے جنم لیا، پہلا یہ کہ فیکٹری کے سکیورٹی گارڈز نے ہنگامہ آرائی پر قابو پانے کی کوشش کی یا ہنگامے کا حصہ بنے؟۔ ماحول کشیدہ تھا تو فیکٹری مالکان نے مدد کیلئے بروقت پولیس کو اطلاع کیوں نہ کی؟۔ واقعہ کے بعدپولیس آئی تو اس نے واقعہ کو روکنے میں کیا کردار اداکیا؟۔ جو بھی معاملہ ہوا ہے آگے کی تمام کارروائی ایف آئی آر کی بنیاد پر آگے چلے گی ۔ پولیس نے جو ایف آئی آر درج کی ہے سپریم کورٹ تو کیا کوئی عالمی عدالت تک چلا جائے مقدمے کی بنیاد یہی ایف آئی آر ٹھہرے گی ، حکومت پنجاب نے واقعہ کی مذمت کے ساتھ ایف آئی آر کی کاپی بھی جاری کی جو کہ من و عن یہ ہے۔ سیالکوٹ کے تھانہ اگوکی کی ایف آئی آر نمبر 1412/21کے مطابق استغاثہ زیر دفعہ 302/297/201/427/431/147/149 ت پATA 7/11 WWقلمی ہے کہ امروز من SI/SHO معہ کاشف علی ASI، امتیاز احمد C/1478، ثمر عباس C/337مسلح ہائے رائفل SMGبسلسلہ گشت بسواری سرکاری گاڑی موبائل 1 نمبری GAA-722جس کا ڈرائیور محمد عرفان C/692ہے ، ماڈل ٹائون اگوکی موجود تھا کہ 11:28بجے دن بذریعہ وائرلیس کنٹرول اطلاع موصول ہوئی کہ راجکو فیکٹری نول موڑ کچھ لوگ احتجاج ہر رہے ہیں ،حسب اطلاع 11:45بجے دن معہ ہمراہی ملازمین موقع پر پہنچا تو روڈ بلاک تھا اور راہگیروں کی گاڑیاں ٹریفک میں رکی ہوئی تھیں، قریب 100 گز پیچھے گاڑی سرکاری کھڑی کر کے ہمراہی ملازمان کو ساتھ لے کر جب راجکو فیکٹری کے سامنے پہنچا تو فیکٹری کے اندر ہنگامہ ہو رہا تھا، فیکٹری کے مغربی دروازے سے دروازہ کھلوا کر میں معہ ہمراہی ملازمین اندر داخل ہوا تو 800/900 افراد جن میں سے کچھ مسلح ڈنڈے سوٹے تھے جن کو میں اور میرے ہمراہی ملازمین سامنے آنے پر شناخت کر سکتے ہیں کو ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے پایا جو کہ ایک شخص جس کا بعد میں نام Mr.Priyantha معلوم ہوا کو مردہ حالت میں گھسیٹتے ہوئے سڑک وزیر آباد روڈ پر لے گئے۔ میں نے روکنے کی کوشش کی مگر نفری ناکافی ہونے کی وجہ سے نہ روک سکا جنہوں نے نعش کو سڑک پر رکھ کر آگ لگا دی، دیکھنے والوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، مشتعل افراد نعرہ بازی کر رہے تھے کہ اس نے ان کے مذہبی جذبات کو مجروع کیا ہے ۔ بذریعہ کنٹرول ابتدائی صورتحال سے آگاہ کیا جس کے بعد سرکل پولیس موقع پر آ گئی ، فیکٹری کے اندر ایک کار کی توڑ پھوڑ ہونا پائی گئی۔ ابتدائی طور پر معلوم ہوا کہ مسمیMr. Priyantha کو مذہبی توہین کے الزام میں فیکٹری ملازمین اور ان کے بلوانے پر قرب و جوار سے آئے ہوئے نامعلوم افراد نے ڈنڈوں سوٹوں سے مسلح ہو کر مذکورہ شخص کو قتل کر دیا ہے اور بعد ازاں اس کی نعش کی بے حرمتی کی۔ نامعلوم ملزمان نے مسمی Mr.Priyantha کو قتل کر کے نعش کی بے حرمتی کر کے نعش کو جلا کر روڈ بلاک کر کے عوام میں خوف و ہراس پھیلایا۔ سردست حالات و واقعات سے صورت جرم 302/297/201/427/431/147/149 ت پATA 7/11 WWپائی گئی ہے۔ ایف آئی آر بہت کمزور ہے ، جس ایف آئی آر میں ہنگامہ آرائی ، نامعلوم ملزمان، جیسے الفاظ شامل ہوں تو اس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے، پولیس نے ایف آئی آر میں یہ بھی لکھا کہ 8سے 9 سو ملزمان مقتول کو مردہ حالت میں گھسیٹتے ہوئے وزیر آباد روڈ پر لے آئے اور آگ لگا دی، ایک طرف ایف آئی آر میں اقرار کیا گیا کہ کم نفری کی وجہ سے پولیس کچھ نہ کر سکی لیکن ایف آئی آر میں غیر ملکی شہری کو مردہ قرار دیا، حالانکہ مردہ یا زندہ میڈیکل والے قرار دیتے ہیں ، کہا جاتا ہے کہ پریانتھا کمارا کو جب گھسیٹا جا رہا تھا تو وہ زندہ تھا ، معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے بھی اپنے بیان میں زندہ جلانے کی بات کی ہے ، اتنے بڑے واقعے کی ایک ایس آئی کی رپورٹ پر ایف آئی آر بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ واقعہ کا 4یا 5 آر پی اوز پر مشتمل جوائنٹ انوسٹی گیشن سیل قائم ہونا چاہئے اور واقعہ پر جوڈیشل کمیشن بھی بننا چاہئے۔ ٭٭٭٭٭