بلوچستان کا ضلع چاغی جسے اب دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، ایک زمانے میں اس وقت کے صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا سے رقبے میں بڑا تھا۔ کوئٹہ کے گردونواح سے یہ ضلع شروع ہوتا اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا ایران کی سرحد پر جا کر ختم ہوتا۔ پاکستان کے نقشے پر جنوب مغربی سمت میں جو ایک کونہ ہے، جہاں تین ممالک ،ایران افغانستان اور پاکستان ملتے ہیں وہ ضلع چاغی کا قصبہ رباط ہے۔ 1897 ء میں انگریز نے خان آف قلات سے یہ علاقہ ایک معاہدے پر حاصل کرکے یہاں، برٹش بلوچستان کے چھ اضلاع میں سے ایک ضلع چاغی قائم کیا جسکا صدر مقام نوشکی تھا۔ ضلع کے قیام کے پورے ایک سو سال بعد یعنی 1997ء میں، میں اس ضلع میں بحیثیت ڈپٹی کمشنر پہنچا۔ پورا شہر ایک پہاڑی کے دامن میں تھا اور اس پہاڑی پر ڈپٹی کمشنر کا گھر تھا اور اس پر لہرانے والا پاکستان کا جھنڈا ،ایران کی جانب سے پاکستان آنے والوں کو کئی میل دور سے نظر آ جاتا تھا۔ پہاڑی کی مغربی سمت کوئی آبادی نہیں ہے بلکہ وہیں سے دراصل بلوچستان کا وہ ریگستان شروع ہو جاتا ہے جو اپنی معدنیات کی وجہ سے مالا مال ہے۔ اس ریگستان کے بیچوں بیچ سانپ کی طرح چمکدار سڑک گزرتی ہے جو ایران جاتی ہے۔ اس پہاڑی پر کھڑے ہوکر اگر آپ اس وسیع ریگستان میں غروب آفتاب کا منظر دیکھیں تو آپ مصور کائنات، خالق حقیقی کی صناعی کے قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک انگریز ڈپٹی کمشنر آرتھنگٹن ڈیوی نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ میں چاغی کے اس ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں مرنا چاہتا ہوں ،کیونکہ میں اپنی موت کا آخری غروب آفتاب یہاں سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ ڈپٹی کمشنر ہاؤس کی اس پہاڑی کے بعد ایران تک کا علاقہ نہ صرف ایک عام پاکستانی بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے بھی ایک طلسم ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ وسیع ریگستانوں میں بارش کا پانی جمع ہوتا ہے، سنگلاخ پہاڑوں سے برساتی نالے بہہ نکلتے ہیں اور کئی سو مربع کلومیٹر پر پھیلے نشیبی علاقوں میں جھیل کی صورت جمع ہوجاتے ہیں۔ زنگی نادڑ وہ جھیل ہے جو نوشکی سے تھوڑی سی مسافت پر ہے۔ یہ ایک بہت بڑی شکار گاہ ہے، جہاں سائبیریا کے سرد علاقوں سے پرندے سردیوں کے موسم میں ہجرت کرکے آتے ہیں تو ریت کے ٹیلوں کے درمیان ہواؤں سے مضطرب لہروں پر ان پرندوں کا اڑنا، تیرنا، ڈبکیاں لگانا ،کسی متحرک عجائب خانے سے کم نہیں ہوتا۔ انہی ریت کے ٹیلوں میں دنیا کے سب سے خطرناک اور زہریلے سانپ پائے جاتے ہیں جنہیں پکڑنے کے لیے سندھ ہی نہیں بلکہ بھارت سے بھی سپیرے یہاں آتے ہیں، جنہیں ڈپٹی کمشنر باقاعدہ لائسنس جاری کرتا ہے۔ ریت کے یہ ٹیلے افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ پہاڑی سلسلوں کے دامن میں چلتے ہوئے رباط کے اس کونے تک جاتے ہیں جہاں تینوں ملک ملتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں بسنے والوں کی دنیا بھی حیران کن ہے۔ یہ لوگ بارش کے پانی کو ایک نشیبی علاقے میں جمع کرکے زندگی کا سامان کرتے ہیں۔ کنویں کھود کر ایسا نمکین پانی حاصل کرتے ہیں جو کہ پینے کے علاوہ دیگر ضروریات کے کام آتا ہے۔ ہر سال بارشوں سے پہلے ریت پر گرما، خربوزے اور تربوز کے بیج بکھیردیتے ہیں ، پھر بارش سے ان بیجوں میں زندگی آجاتی ہے۔ یوں کئی میل ریت پر ان پھلوں کی بیلیں پھیلی ہوتی ہیں جن پر گرما ، خربوزے اور تربوز دھرے ہوتے ہیں۔سرحد کی دوسری جانب افغانستان کا صوبہ ہلمند ہے۔ جب میں چاغی میں ڈپٹی کمشنر تھا تو اس دور میں اس صوبے کا گورنر ملا عبدالغنی برادر تھا جو ان دنوں طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں طالبان ٹیم کا سربراہ ہے۔ ریت کے ٹیلے، سنگلاخ بلند و بالا پہاڑ، کہیں کہیں چشموں کے کنارے آباد نخلستان، پانی کے بہاؤ میں وسیع و عریض ایئرپورٹ کے رن وے کی طرح ہموار بڑے بڑے میدان اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پورے چاغی پر چھایا ہوا سکوت۔ اقبال یاد آتے ہیں، جو خامشی پر مرتے تھے، دامن کوہ میں چھوٹا سا جھونپڑا چاہتے تھے اور کہتے تھے "ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو"۔ یہ عالمِ کیف صرف چاغی میں مل ہی سکتا ہے اور اگر کبھی آپ اسکے وسیع ریگستان میں چودھویں کے چاند کی رات گزار لیں تو آپ اسکے سحر میں گرفتار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اسقدر خوبصورت سرزمین کی بدقسمتی یہ ہے کہ اللہ نے اسے معدنیات کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے اور پوری دنیا کی للچائی ہوئی نظریں اس خطے پر گڑی ہوئی ہیں۔ موجودہ چاغی ڈسٹرکٹ جس سے نوشکی علیحدہ کردیا گیا ہے، اس میں نخلستانوں کی ہریالی کم ہے لیکن معدنیات کی دولت بیش بہا۔ ماربل اور گرینائٹ کا پتھر جو کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پاکستان کے ہر شہر کے گھروں، پلازوں اور عمارتوں کو زینت بخشتا ہے مگر اپنے گھر چاغی میں آپ کو شاید ہی کسی عمارت میں یہ پتھر نظر آئے۔ وہ سبز سنگ مرمر جس سے چین و جاپان میں مجسمے بنائے جاتے ہیں، بڑے بڑے ٹرکوں میں لادکر کتنی خاموشی سے سلطان کی چڑھائی چڑھ کر اس ضلع کی سرحدیں عبور کر جاتا ہے۔ اس لیے کہ ان پتھروں کو تراشنے خراشنے،ٹائلیں بنانے اور دیگر مصارف میں لانے کے کارخانے باقی تین صوبوں میں تو ہیں لیکن بلوچستان اپنی اس دولت کو تراشنے کے ہنر سے محروم ۔ لاہور کے کسی پلازے پر لگے گرینائٹ اور گھر میں لگے ماربل کو دیکھ کر شاید ہی کسی کے ذہن میں آتا ہو کہ یہ پتھر چاغی کا ہے اور پھرچاغی کو یاد کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ ہم وہ مرعوب قوم ہیں جن کے لیے یاد رکھنے اور بتانے کے لئے اٹلی کی ٹائلیں اور سپین کے واش بیسن کافی ہیں کہ جن سے ہماری عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ چاغی آج سے بیس سال پہلے پاکستان میں دو وجہ سے مشہور تھا۔ ایک ایٹمی دھماکے اور دوسری سیندک کی سونے اور تانبے کی کانوں کی وجہ سے۔ پورے بلوچستان میں یہ تاثر عام تھا کہ سیندک میں جو سونا، چاندی اور تانبا ہے وہ پورے ملک کی قسمت بدلنے کے لیے کافی ہے اور اس پر غاصبانہ نہ قبضہ کیا جا رہا ہے۔ میں جب وہاں پہنچا تو سیندک پر کام بند ہوئے سالوں گزر چکے تھے اور سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس اتنے بڑے ذخیرے کا استعمال کیسے ہو۔ یہ نواز شریف کا دور اقتدار تھا۔ مجھے ایک رپورٹ مرتب کرنے کے لیے کہا گیا جو پراجیکٹ کی تباہی و بربادی کی داستان تھی۔ دالبدین کے ہوائی اڈے پر نواز شریف، اس زمانے کے وزیر پیٹرولیم، معدنی وسائل چوہدری نثار، وزیراعلی اختر مینگل اور دیگر کے ہمراہ ایک جہاز سے اترے۔ آگے کا سفر ہیلی کاپٹر میں طے ہونا تھا۔ تقریبا دو سو کلومیٹر کے سفر میں ایک حیرت کا جہان مجھ پر کھلتا گیا۔ دور کہیں کہیں انسانوں کی چھوٹی سی بستی نظر آجاتی ، ورنہ یوں لگتا تھا جیسے ہم چاند یا مریخ پر اترنے والے ہوں، جہاں انسان ناپید ہے۔ اس پورے علاقے میں چند ایک ایسے راستے بھی نظر آتے ہیں، جو کچے ہیں لیکن انہیں ایئرپورٹ کے رن ویز کی طرح مسلسل ہموار رکھا جاتا ہے۔ ان راستوں پر عالمی ڈرگ مافیاز کی گاڑیاں گزرتی ہیں۔ ایسے قافلے جو کئی سو میل کی رفتار سے اڑان بھر رہے ہوتے ہیں اور ان گاڑیوں پر اینٹی ائیر کرافٹ گنیں تک نصب ہوتی ہیں۔ ایک دفعہ ایران سے آتے ہوئے ایسے ہی ایک قافلے پر دور سے نظر پڑی تو میرے ڈرائیور نے گاڑی روک لی اور کہا اگر ہم انکے نزدیک گئے تو اڑا دیے جائیں گے۔ سیندک کے اجلاس میں جب رپورٹ پیش ہوئی کہ 1970 ء سے لے کر 1997 ء تک 27 سالوں میں بیش بہا دولت لٹانے کے باوجود آج تک ایک چھٹانک تانبہ بھی نہیں نکالا جسکا اور دھات کو پگھلا کر خالص کرنے والا (Smelter) اس طرح صاف شفاف پڑا ہوا ہے جسے ابھی ابھی چین کے حکام نے یہاں لاکر رکھا ہو۔ رپورٹ کے بعد چوہدری نثار اور اسکے زیر سایہ بیوروکریٹس نے اسکے منافع بخش ہونے پر سوال اٹھانے شروع کیے جن کا لب لباب یہ تھا کہ اس منصوبے کو ذوالفقار علی بھٹو نے ایک سیاسی پروجیکٹ کے طور پر شروع کیا تھا ورنہ آج جیولوجکل سروے آف پاکستان نے تو ساٹھ کی دہائی میں کہہ دیا تھا کہ یہ منافع بخش سودا نہیں ہے۔ اس پر نواز شریف کا یہ فقرہ مجھے آج تک یاد ہے "تو پھر ہم نے یہ پنگا کیوں لیا تھا"۔ اس پنگے کی داستان ایک لوٹ مار کی طویل کہانی ہے جس میں مرکز اور بلوچستان دونوں کے حکمرانوں نے خوب سرمایہ کمایا (جاری ہے)