اک سمندر ہو کوئی اور وہ لب جو آئے کیوں نہ اظہار کو ان آنکھوں میں آنسو آئے خوش گمانی نے عجب معجزہ سامانی کی اب ہمیں کاغذی پھولوں سے بھی خوشبو آئے اس موسم میں عید قربان کی خو بوہے تو سوچا کہ لمحات کو سہانا بنا دیا جائے۔رکھنے دیں گے نہ قدم تجھ کو زمیں پر کوئی۔اپنی پلکوں کو بچھا دیں گے اگر تو آئے۔اس کی آنکھوں کو جو دیکھا تو پکار اٹھا میں، کیا ضروری ہے کہ ہر شخص کو جادو آئے۔اصل میں عید قربان پر ایک شاندار مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں راقم میزبان تھا۔ کچھ اس قدر شاندار محفل تھی کہ میں نے سوچا کہ اپنے قارئین کو لطف اندوز کیا جائے۔ ایسے حالات میں کہ جب حالات دگرگوں ہوں تو فرحت و انبساط کے لمحے غنیمت ہوتے ہیں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ نو مئی کے معاملات اور اس کے اثرات کا قربانی سے بھی گہرا تعلق ہے ۔ ہم مگر آج سیاست کو ٹچ بھی نہیں کریں گے وولٹیج بہت خطرناک ہے۔ خیر ہم تذکرہ کرتے ہیں شعروں کا۔ہر طرح کی شاعری تھی ۔محمد علی صابری فرمانے لگے: عید کرنے گھروں کو جانے تک ہر طرف تھے مسافروں کے جھنڈ رہ گئے تھے جو شہر میں باقی ان پہ اترے گداگروں کے جھنڈ ایساشاندار دلگداز اور طرح دار مشاعرہ تھاکہ بس۔ نوجوان شاعر قسیم جعفری کا شعر دیکھیے: ریل کے ساتھ بھاگتا ہوا شخص تجھ کو کس قدر چاہتا ہو گا یہ بھی اچھا لگا کہ نوجوان شاعر میں نیا پن اور انفرادیت بھی نظر آئی اور کلاسیکل آہنگ بھی۔شبنم مرزا نے اپنی غزل گا کر سنائی تو سماں باندھ دیا: ہم ہوئے پھول اور صبا صاحب فاصلہ اب نہیں رہا صاحب ہم تو در سے تمہارے جاتے ہیں دستکیں دے گی اب ہوا صاحب ایک سے ایک اچھا شعر سامنے آنے لگا: تم سمجھتے ہو کہ آسمان بہت ہے عشق میں جان کا نقصان بہت ہے دل کے بدلے ہوئے حالات سے ڈر لگتا ہے پھر قبیلے کی روایات سے ڈر لگتا ہے (حرا رانا) کہہ دیا جب تجھے غزل جیسا اس سے بڑھ کر مثال کیا دیتے اس کے رخ سے نقاب کیا سرکا دفعتاً دھوپ سی نکل آئی (ممتاز راشد لاہوری) وہ خدوخال میں ہے میر کے دلی جیسا وہ اسے شعر میں باندھے جسے اردو آئے مجھے خبر تھی کہ اس بے کسی کے عرصے میں وہ بیچ دے گا کسی روز مجھ کو سستے میں میں اب بھی ڈھونڈتا پھرتا ہوں گمشدہ تتلی پڑے ہیں آج بھی کچھ خواب میرے بستے میں (جاوید قاسم) اس مشاعرے کا اہتمام محترم غازی بابر اور غیاث الدین بابر نے کیا تھا۔وہ معروف شخصیت ظہیر الدین بابر کے فرزندان ہیں۔ وہ سالہا سال سے ادب و شاعری کی خدمت کر رہے ہیں۔ محمد عباس مرزا نے بیت سنائے: غزلاں تینوں ویکھ کے اگے ٹردیاں نیں آندی جاندی غزل نوازی کر دی ریو آخر میں صاحب صدارت سے پہلے مہمان خصوصی ڈاکٹر جواز جعفری کے اشعار: عید کے روز بھی ویراں سی حویلی کیوں ہے سات بیٹوں کی وہ ماں ہے تو اکیلی کیوں ہے کام مشکل تھا مگر ہو گیا آسانی سے دل کو آباد کیا بے سروسامانی سے جناب نذیر قیصر یقینا ایک لیجنڈ ہیں ان کو سن کر لطف آ گیا: یہ صورتیں جو نظر آ رہی ہیں بنتی ہوئی انہیں بنانے میں خود کو مٹانا پڑتا ہے کہیں کہیں نئی آنکھیں بنانا پڑتی ہیں کہیں کہیں نیا منظر بنانا پڑتا ہے اور حاصل غزل شعر یہ تھا: ہمارا ملک خدا نے ہمیں دیا ہوا ہے ہمارا ملک خدا کو چلانا پڑتا ہے اب دیکھیں کہ شاعر تلخ حقیقتوں کو کتنی آسانی سے بیان کر جاتا ہے۔ صاحب صدر ے خاص طور پر ظہیرالدین بابر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نام ادب کی تاریخ میں زندہ رہے گا۔