معزز قارئین! مَیں نے تقریباً 50 سال پہلے ، ایک بھارتی فلم میں ہیروئین کو ہیرو کے سامنے ناچتے اور ایک گیت گاتے سُنا تھا کہ ، جس کا مُکھڑا ( مطلع ) تھا کہ …

مجھے اپنے رنگ میں ، رنگ لو ،

 سجنا، سوہنے رنگ میں!

وزیراعظم نواز شریف ۔ سپریم کورٹ کی طرف سے آئین کی دفعہ 62 کے تحت نااہل قرار دئیے جانے سے پہلے جانتے تھے کہ ’’ اُن کی نااہلی کے بعد ، میاں شہباز شریف کے بجائے شاہد خاقان عباسی اُن کے صحیح جانشین ثابت ہوں گے ‘‘۔ یہی ہُوا۔ پرسوں (27 جون ) کو الیکشن ٹربیونل کے سربرا ہ جسٹس عباد اُلرحمن لودھی نے شاہد خاقان عباسی کو، نہ صِرف آئین کی دفعہ 62 بلکہ 63 کے تحت بھی تاحیات نااہل قرار دے دِیا۔ جسٹس عباد اُلرحمن لودھی صاحب نے تواور بھی کئی سیاستدانوں کو کاغذاتِ نامزدگی میں اپنے اثاثوں میں معلومات اور حقائق چھپانے پر نااہل قرار دِیا ہے لیکن، شاہد خاقان عباسی پر "Tampering" کا بھی الزام ہے ۔

 "Tampering" کے عام معنی تو ’’چھیڑ چھاڑ ‘‘ کے ہیں لیکن، غصہ ، برہمی، بد مزاجی اور خُود کو قابو میں نہ رکھنے کے مرض (Disease) کو بھی ’’ٹمپرنگ‘‘ ہی کہا جاتا ہے ۔ وزیراعظم کی حیثیت سے نااہل وزیراعظم کے "His Master's Voice" شاہد خاقان عباسی اپنے ( دِل کے وزیراعظم ) نااہل نواز شریف کے صحیح جانشین ثابت ہُوئے۔ اگر نواز شریف پیر (شیخ ) ہوتے تو، عباسی صاحب ’’فنا فی الشیخ ‘‘ کہلاتے لیکن، نواز شریف تونااہل سیاستدان ہیں ۔ بہرحال اِس وقت تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’ شاہد خاقان عباسی اپنے قائد (نااہل وزیراعظم ) پر قربان ہو گئے اور اپنے قائد سے بھی زیادہ "Colourful" (خُوش رنگ ، رنگین) ثابت ہُوئے!۔ 

ایک بہت ہی پرانہ لطیفہ ہے کہ ’’ کسی ان پڑھ پنجابی نوجوان نے ، ایک تعلیم یافتہ ( اردو سپیکنگ ) خاتون سے "Tempering" (چھیڑ چھاڑ) کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ ہائے مَیں تیرے کڑ بان جاواں !‘‘ خاتون نے کہا کہ ’’ واللہ ! بھائی جان ! آپ مجھ پر قُربان جانے سے پہلے اپنا تلفظ تو دُرست کرلیں؟‘‘ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ’’ تاحیات نااہل ہونے کے بعد شاہد خاقان عباسی نے ( اپنے مرض سے صحت یاب ہُوئے بغیر ) کہا کہ ’’ میری نااہلی کا فیصلہ ذہنی معذور شخص ( جسٹس عباد اُلرحمن لودھی ) نے دِیا ہے‘‘ ۔ مسٹر عباسی نے کئی نیوز چینلز پر اِس طرح کی گفتگو بھی کی کہ ’’ میرے خلاف فیصلہ سُنانے سے پہلے معذور شخص نے وُکلاء سے پوچھا تو اُنہوں نے کہا کہ ’’آپ کو اِس کا اختیار نہیں ہے!‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ’’اِس طرح کی واہیات گفتگو کرنے سے نواز شریف تو شاید عباسی صاحب سے خُوش ہو جائیں لیکن، اُن پر سپریم کورٹ کی توہین کے جُرم میں ، مقدمہ بھی تو، چلایا جاسکتا ہے کیونکہ امیدواروں کے کاغذاتِ  نامزدگی کے بارے میں اِس طرح کا اعلان پہلے ہی کردِیا گیا تھا۔ 

یکم اگست 2017ء سے 31 مئی 2018 ء تک وزیراعظم کی حیثیت سے شاہد خاقان عباسی نے ( نااہل وزیراعظم نوازشریف کے حُکم سے ) جتنے بھی گھپلے کئے (اور جن جن پرانے گھپلوں کی پردہ پوشی کی ) اُن کا بھی تو حساب دینا پڑے گا؟۔ نواز شریف ، اُن کی بیٹی مریم نواز، داماد کیپٹن( ر) محمد صفدر اور بیٹے حسین نواز اور حسن نواز کو، بحیثیت ملزمان عدالتوں میں پیش ہوتے وقت قومی خزانے سے جو مراعات دِی گئیں اور اُن کے جلسوں اور "Protocol" پر جو، اخراجات ہُوئے ہیں وہ "N.A.B" کے افسران یا نگران حکومت وصول کرے گی ؟ یا 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب حکومت ؟ ۔ 

وزیراعظم کی حیثیت سے شاہد خاقان عباسی نے ایک بہت بڑا جُرم 5 اپریل 2018ء ( 18 رجب اُلمرجب 1439ھ) قمر ی مہینے کی ’’نوچندی جمعرات‘‘ کو کِیا۔ (حالانکہ نوچندی جمعرات کو مسلمان اپنے بزرگوں کے مزاروں / قبروں پر فاتحہ پڑھتے اورشیرینی وغیرہ تقسیم کرتے۔ اُس روز شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کالے دھن والوں (Black Moneyed) کو اپنا دھن ۔ سفید (White Money) میں تبدیل کرنے کے لئے "Amnesty" ( جرم کی معافی) کا اعلان کِیا۔ 7 اپریل کو روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ’’ کالے دھنؔ والوں کے۔ گورےؔ مسیحا۔ وزیراعظم عباسی؟‘‘ ۔ 

معزز قارئین!۔ پاکستان مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے قائداعظم کی کُرسی پر بیٹھنے والے میاں نواز شریف نے وزیراعظم کی حیثیت سے جتنے بھی ’’نظریاتی جرائم‘‘ کئے شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ (ن) کے تقریباً سبھی لوگ اُن میں شامل رہے۔ 26 مئی 2014ء کو وزیراعظم نواز شریف نے ’’شب معراجِ رسول ؐ ‘‘ کو دہلی کے 22 خواجگان میں سے کسی ایک خواجہ کے دربار کے بجائے وہ رات بھارت کے نومنتخب وزیراعظم شری نریندر مودی سے "One on One" ملاقات میں گزاری تھی۔ اگلے دِن میڈیا پر خبر آئی کہ ’’ وزیراعظم مودی نے وزیراعظم نواز شریف کو "Man of the Peace" ( مردِ امن) کا خطاب دِیا‘‘۔ 

پھر مودی جی کی ماتا جی اور وزیراعظم نواز شریف کی والدہ محترمہ کے درمیان تحائف کا تبادلہ ہُوا۔ 25 دسمبر 2015ء کو قائداعظمؒ کی سالگرہ اور وزیراعظم نواز شریف کی سالگرہ کے موقع پر سرِ شام مریم نواز کی بیٹی مہر اُلنساء کی رسمِ حنا کی تقریب میں اپنے پورے لائو لشکر سمیت وزیراعظم نریندر مودی دَر آئے ۔ اُسی رات الیکٹرانک میڈیا پر خبر آئی کہ ’’ وزیراعظم نواز شریف نے مودی جی کو اپنے بھائی میاں شہباز شریف ، دونوں بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کے علاوہ اپنی والدۂ محترمہ سے بھی ملوایا۔ والدہ محترمہ نے دونوں سے کہا کہ ’’ مِل کر رہو گے تو خُود رہو گے!‘‘مودی جی نے بھی سعادت مندی سے کہا کہ ’’ ماتا جی! ہم اکٹھے ہی ہیں ‘‘ ۔ مودی جی اور نواز شریف اب کب اکٹھے ہوں گے؟۔ شاہد خاقان عباسی بتائیں!۔ 

2 دسمبر 2017ء کو اپنی اتحادی پارٹی ۔ ’’پشتونخوا ملی عوامی پارٹی‘‘ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے مقتول والد عبداُلصمد اچکزئی کی 44 ویں برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ ’’ میرا محمود خان اچکزئی سے نظریاتی رشتہ ہے۔ یہ نظریہ مجھے ہمیشہ عزیز رہا ہے جِس کو مَیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ میری سیاست اب اِسی نظرئیے پر چلے گی‘‘۔ یاد رہے کہ ’’ عبد اُلصمد اچکزئی تحریک پاکستان کے مخالف تھے اور اُنہیں ہندوئوں کے باپو موہن داس کرم چند گاندھی کا ہمنوا ہونے کی وجہ سے ’’بلوچ گاندھی ‘‘ کہا جاتا تھا۔ تحریک پاکستان کی مخالفت میں ’’ جمعیت عُلمائے ہند‘‘  میں شامل زیادہ تر مذہبی قائدین کو بھی ’’ کانگریسی مولوی ‘‘ کہا جاتا تھا۔ ’’ طالبان کا باپ ‘‘ کہلانے والے مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل اُلرحمن بھی ’’ کانگریسی مولویوں کی باقیات‘‘ ہیں۔ 

قیام پاکستان کے بعد مولانا فضل اُلرحمن کے والد مرحوم مفتی محمود کا یہ بیان "On Record" ہے  کہ ’’ خُدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیںتھے ‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ یہ مسلم لیگ (ن) کے کردار پر بہت ہی بدنما داغ ہے کہ اپنے قائد میاں نواز شریف کی فرمائش پر 13 اکتوبر 2017ء کو پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وزیراعظم ہائوس کی ایک دیوار پر نصب ایک "Four Colour Plaque" ( چار رنگی دھات ، چینی، وغیرہ کی تختی) کی نقاب کُشائی کی اور کہا کہ ’’ مولانا مفتی محمود کی ’’دینی ، قومی اور سیاسی خدمات‘‘ کے اعتراف میں کل 14 اکتوبر کو اُن کی 37 ویں برسی پر یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کردِیا جائے گا ‘‘ ۔

معزز قارئین! مجھے نہیں معلوم کہ آئندہ منتخب وزیراعظم کون ہوگا؟ لیکن، میری تو یہی خواہش ہے کہ وہ جو بھی آئے وہ کم از کم عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے انتظام سے پہلے،وزیراعظم ہائوس کی دیوار پر نصب ’’ یادگاری لوحِ مفتی محمود‘‘ کو اُکھاڑ کر ضرور باہر پھینک دے !۔شاہد خاقان عباسی کی قُربانی سے نواز شریف اور مختلف مقدمات میں ملوث اُن کے دونوں بیٹوں ، بیٹی اور داماد اور ممکنہ طور پر میاں شہباز شریف ، اُن کے داماد علی عمران اور بیٹے حمزہ شہباز کو کِتنا ثواب ملے گا مَیں نہیں جانتا اور عباسی صاحب کودُنیا اور آخرت میں اِس کا کیا صلہ ملے گا ؟۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم؟۔