وہ طبیعت کہاں بہل جائے وصل سے اور جو مچل جائے یہ بھی رکھا ہے دھیان میں ہم نے وہ اچانک اگر بدل جائے پھر اس میں ایک رومانوی شعر ضروری ہے کہ کتنا نازک ہے وہ پری پیکر۔ جس کا جگنو سے ہاتھ جل جائے۔ تو صاحبو! ہمارا تو دل جل گیا ہے سارے رومانس دھرے کے دھرے رہ گئے کہ یہ سوچ کر سوئے تھے کہ پٹرول اٹھارہ روپے سستا ہو گا صبح پٹرول ڈلوائیں گے۔ خدا کی پناہ حکومت کا اتنا بڑا یوٹرن اور تو اور وہ قطعہ جو میں نے حکومت کو داد دیتے ہوئے لکھا تھا وہ چھپا تو طنزیہ بن گیا۔ حالانکہ میں نے تو سچ مچ حکومت کی تعریف کی تھی مگر قطعہ کے چھپتے چھپتے حکومت اپنے اعلان سے پھر گئی۔ تقریباً سات روپے فی لٹر پٹرول کی قیمت بڑھ گئی۔ آپ اسے نرم سے نرم الفاظ میں یہ کہیں گے کہ پوری قوم کا مذاق اڑایا گیا مسلسل چرچا ہوتا رہا کہ شہبازشریف قوم کو 14 اگست پر تحفہ دینا چاہتے ہیں اور وہ پٹرول میں ریلیف دینے جا رہے ہیں۔ بڑی دھوم مچی اس اقدام کی۔ یہ بھی ن لیگ والوں نے ہی کہا کہ اس کمی کو یہ نہ سمجھا جائے کہ عمران کے جلسے کے باعث ہوئی بلکہ عمران نے اس کمی کے اعلان کے بعد کم کرنے کا کہا تھا۔ دہائی خدا کی ایسی کہہ مکرنی۔ یہ تو صرف کتابوں میں پڑھی۔ ہائے ہائے غالب: گھر پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسے پھر گیا جتنے عرصے میں میرا لپٹا ہوا بستر کھلا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت اکھڑی اکھڑی دکھائی دیتی ہے ۔ اتنا بڑا ہاتھ کرنے کے بعد بھی نوازشریف کی اہمیت یہ کہہ کر بڑھائی جا رہی ہے کہ وہ تو ناراض ہو کر اجلاس سے اٹھ گئے اور مریم نواز کو بھی یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ بندہ پوچھے عوام نے نوازشرف کی رضامندی یا ناراضگی کو چاٹنا ہے۔ آپ ان پر اس عالم میں بھی پٹرول بم گرا رہے ہیں جب ان کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دودھ 180 روپے کلو ہو چکا۔ ہر کوئی قیمتیں بڑھا رہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ شہبازشریف کی بدن بولی ہرگز وزیراعظم کی نہیں بلکہ اب تو وزیراعلیٰ کی بھی نہیں۔ محسوس یوں ہورہا ہے کہ عمران خان کا راستہ صاف کیا جارہا ہے ۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا سمجھ میں نہیں آتا کہ ہو کیا رہا ہے۔ عمران خان کا لب و لہجہ بھی بدل گیا۔ کارکردگی کا جائزہ لیا جارہا ہے وہ کارکردگی جو ہمیں نظر نہیں آتی۔ خان صاحب نے قذافی سٹیڈیم کے ہاکی گرائونڈ میں جلسہ بھی کرلیا۔ مگر اس عمل کا مقصد پوری قوم کی سمجھ میں نہیں آیا کہ جلسہ تو کرکٹ گرائونڈ میں بھی ہو سکتا تھا ۔۔ بہرحال ہم اقبال کے معترف ہونے کے باوجود اس بات کو نہیں مانتے کہ کوئی بھی چیز نکمی نہیں زمانے میں۔ یہ بات قدرت کے کارخانے کے خلاف بس ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہم نے رج کے نکمے اور نااہل دیکھ لیئے۔ ہو سکتا ہے وہ کسی اور کے لیے فائدہ مند ہوں کہ وہ اکیلے تھوڑا کھاتے ہیں اوپر سے نیچے تک ہی طلب او رسد کا سلسلہ ہے۔ ہم نے تو آخری یقین خان پہ کیا تھا: اپنا تو اصل زر سے بس نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ ایک ابتری اور بدامنی۔ امن و سکون غارت ہو کر رہ گیا۔ آپ 92 نیوز کی اس خبر سے اندازہ لگائیں کہ پنجاب میں تبادلوں کا جھکڑ 37 ڈی سی 42 ایس پی ڈی ایس پی تبدیل۔ کوئی ٹک کر نہ بیٹھے۔ وہی کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ کوئی پتہ نہیں کب پانسہ پلٹے اور پھر بھی اکھاڑ پچھاڑ۔ اب بتائیے ایسے میں کیا کام ہو سکتا ہے۔ بھگتیں گے صرف عوام۔ ملک کو جزیروں میں بانٹ دیا گیا ہے آپ مانیں نہ مانیں ایسے ہی ہے مرکزی جزیرہ اسلام آباد ہے جہاں ایک مسلم لیگ کی حکومت ہے۔ زرداری کا سندھ‘ پختنخوا عمران اور اسی طرح بلوچستان۔ دیکھا جائے تو ان سب کے درمیان کہیں بے نظیر زنجیر ہوا کرتی تھی ۔ اب رہی بات کہ وزیراعظم کیا کر رہے ہیں تو وہ سعودی ولی عہد رابطہ مہم پر ہیں۔ تعاون بڑھانے پر اتفاق۔ اس میں اتفاق والی کون سی بات ہے یہ تو رضا مندگی ہے۔ ہاں یہ اتفاق اس لیے ہے کہ ان سے امداد کی امید نہیں تھی۔ شہبازشریف جب سے آئے ہیں یہی مہم چلا رہے ہیں۔ ادھار تیل ملنے کی امید ہے اور پاکستان کی دعوت قبول ہو چکی کہ وہ محمد بن سلمان دورہ کریں گے۔ مگر ہوگا وہی کہ آئے ہوتو کیا لے کر آئے ہو اور جائو گے تو کیا دے کر جائو گے: ہے خبر گرم ان کے آنے کی آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا آخری تذکرہ اس تقریب کا کہ جس میں مرد و خواتین محو رقص تھے اور مفتی تقی عثمانی اس کا برا منا گئے۔ قبلہ یہ تو اب ایک سٹیٹس بن چکا ہے یہ سرکاری تقریب تھی کہ اس میں تو ہوتا ہی موج میلہ ہے۔ تعلیمی اداروں میں شاید آپ نہیں جانتے خاص طور پر جو پرائیویٹ میں وہ ثقافت کے نام پر کیا کچھ نہیں کرتے۔ اصل میں ہم سچ مچ اللہ کو بھولے ہوئے ہیں اور اس کے پیغام سے دور۔ ہم اصل میں دنیا دار ہیں اور دنیاکے سوا کچھ نہیں۔ یعنی کھیل تماشا ہمارے ہاں تو سیاست چھوڑ کر ہر جگہ تماشا ہے وگرنہ اصل چیز دین ہے۔ کیا کریں کہ حالت ہی ہماری ایسی ہو گئی ہے کہ آج مرا نچنے نوں جی کردا۔ پھر اس پر کمنٹ کرنے والے ہی رانا ثناء اللہ جیسے ہیں سب کچھ شرمناک ہے۔ وہی کہ عالم دوبارہ نسیت۔ ذی ہوش تو یہ سب کچھ دیکھ کر اپنے حواس کھو بیٹے ہیں۔ باقی رہی بات کے جہاں سے بات شروع ہو گئی تھی مریم نواز نے بھی حکومت کے فیصلے کو کہ پٹرول مہنگا ہو گیا پر اتفاق نہیں کیا اور نوازشریف ناراض: کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا