دہشت گردی کب ختم ہوگی؟ یہ بہت بڑا سوال ہے بلا شبہ دہشت گردی کی ماں انتہا پسندی ہے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا باعث انتہا پسندانہ سوچ اور انتہا پسندانہ رویے ہیں ۔ آج میں مولانا طارق جمیل کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں لیکن سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں ان دہشت گردوں کی جو وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ بر سر پیکار ہیں، آئے روز دہشت گرد کاروائیوں کی خبریں آتی ہیں ، گزشتہ روز بھی دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کے دوران سپاہی سکم داد اور لانس نائیک عبدالوحید شہید ہوئے اور پاک فوج کے پانچ سپاہی زخمی بھی ہوئے جبکہ 9 دہشت گرد جہنم واصل ہوئے ۔ جنرل ضیا الحق دور میں جہاد کے نام پر افغانستان میں فساد شروع ہوا ، در اصل یہ روس اور امریکہ کی جنگ تھی ، امریکا نے پیسے کے بل بوتے پر روس کو شکست دی ، اس جنگ میں ٹھیکیداروں نے دولت کمائی مگر غریبوں کے نادان مسلم بچے جنگ کا ایندھن بنے ۔ روس کے جانے کے بعدبھی جنگ ختم نہیں ہوئی اور دہشت گرد کاروائیوں ، بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی شکل میں لاکھوں پاکستانی مارے گئے اور کھربوں کی املاک کو نقصان پہنچا ۔ ہر طرف سے سوال کیا جاتا تھا کہ روس کے جانے کے بعد اب جنگ کس کے خلاف ہے ؟ مگر کہیں سے کوئی مناسب جواب نہ آیا ، اس جنگ میں یہ بھی ہوا کہ آرمی پبلک سکول کے پھول جیسے بچے ناحق مار دیئے گئے۔ دہشت گردوں کی پھر بھی تشفی نہ ہوئی ، اب کہا جا رہا ہے کہ طالبان افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔ سوال اتنا ہے کہ کیا وزیرستان میں امریکی فوج بیٹھی ہے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر آئے روز یہ دہشت گرد کاروائیاں کیوں؟اس کا جواب ان پر لازم ہے جو دہشت گردوں کے حق میںلکھتے ہیں اس بات کو بھی دیکھنا ہو گا کہ آیا امریکہ مخالف روپ میں امریکہ کے تنخواہ دار تو تخریبی کارروائیاں نہیں کر رہے؟ اگر ہم مولانا طارق جمیل کے بارے بات کریں تو اُن کے خلاف بعض میڈیا ہاؤسز کی طرف سے حال ہی میں جو طوفان اٹھایا گیا ہے یہ بھی انتہا پسندی کی ایک شکل ہے ۔ میرا اپنا تعلق میڈیا سے ہے اور میں صحافت کا ادنیٰ سا طالب علم ہوں ، میری مولانا طارق جمیل سے نہ کوئی ملاقات ہے اور نہ ہی میری ان کی جماعت سے کسی طرح کی کوئی وابستگی، اگر ہم میرٹ پر بات کریں تو حقیقت یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل نے وزیراعظم عمران خان کی فنڈ ریزنگ مہم کے دوران کوئی اتنی غلط بات نہیں کی جتنا کہ طوفان اُٹھایا گیا ، بات کا بتنگڑ بنایا گیا پھر بھی مولانا طارق جمیل نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وسیب کی روایات کے تحت پوری دنیا کے سامنے ہاتھ جوڑے اور کہا کہ پیغمبر کے سوا دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جس سے غلطی نہ ہو ، چاہے کوئی کتنا ہی بڑا عالم یا شیخ نہ ہو ۔ مولانا نے یہ بھی کہا کہ میں اپنی غلطی کے بارے میں کوئی دلیل نہیں پیش کرنا چاہتا اور صاف اور واضح لفظوں میں اپنی غلطی کی معافی طلب کر رہا ہوں ۔ افسوس کہ مولانا کی معافی کے بعد بھی ٹی وی سکرین پر بیٹھے ہوئے ٹی وی اینکرز نے نہ صرف یہ کہ معافی کو قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ ان کو مزید گندہ اور خراب کرنے کی کوشش کرتے رہے ، جس کے بعد لوگوں میں ایک اشتعال پیدا ہوا اور سوشل میڈیا پر اینکرز کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا اور اس موقع پر صرف مذکورہ میڈیا اینکر یا اس سے وابستہ چینل کو ہی نہیں ، تمام میڈیا کو برا بھلا کہا جانے لگا اور ان میں سے بعض حضرات جو کہ شاید اپنے اندر غصے کا غبار لئے ہوئے تھے ، انہوں نے تمام میڈیا اور اس سے وابستہ تمام لوگوں کو گالیاں تک بکنا شروع کر دیں ، میں ابھی سوشل میڈیا پر دیکھ رہا تھا ، جان حبیب نامی ایک شخص ننگی گالیاں دینے کے ساتھ یہ فتویٰ بھی دے رہا تھا کہ چینلز کو توڑ دو ، جو گاڑی نظر آئے پتھر مارو اور ٹی وی اینکرز کو معاف نہ کرو ۔ یہ شخص گفتگو کے دوران کلمہ شریف پڑھ کر کہتا ہے کہ مجھے جو گاڑی نظر آئے گی میں اسے پتھر ماروں گا۔ یہ در اصل عدم برداشت اور انتہا پسندی کی، پاگل پن کی بے ہودہ ترین دوسری شکل ہے ۔ جیسا کہ مولانا طارق جمیل نے اتنی بات کی کہ میڈیا پر جھوٹ بولا جاتاہے، اس کے ساتھ انہوں نے عمران خان کی تعریف بھی کر دی تو کیا قیامت آ گئی تھی ۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ میڈیا اینکر سیاستدانوں پر جائز ناجائز تنقید کرتے ہوئے سیاستدانوں کو پچھاڑ دیتے ہیں اور اگر ہمارے خلاف کوئی ذرہ سی بات کر ے تو ہم برداشت کو تیار نہیں، ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنا ہوگا ، انصاف اور اعتدال پسندی سے کام لینا ہوگا ۔ آج میڈیا کی دنیا میں جو بحران آیا ہوا ہے ، اس کا باعث میڈیا سے وابستہ سب لوگ نہیں بلکہ وہ ہیں جو سائیکل سے گاڑی تک پہنچے اور جھونپڑی سے نکل کر محلات بنا لئے ۔ آج کوئی یہ نہ سمجھے کہ چینل بہت بڑا ہتھیار ہے ۔ آج موبائل کی شکل میں چھوٹے موٹے ہتھیار سب کے پاس ہیں ، آج لوگ اتنے سمجھدار ہو چکے ہیں کہ ایک سکینڈ میں دودھ کا دودھ ا ور پانی کا پانی کر دیتے ہیں۔ لوگ صرف سامنے والے چینل کے بارے جان پہچان نہیں رکھتے بلکہ ان کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ اینکر کس چینل سے بول رہا ہے۔ ہماری صحافی برادری کو سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہئے اور خود احتسابی کا بھی عمل شروع کرنا چاہئے ۔ تنقید کرنے والوں کو تنقید سننے کا بھی حوصلہ ہونا چاہئے ۔ مولانا طارق جمیل کو جس بنا پر لوگ پسند کرتے ہیں اس کی اصل حقیقت کو سمجھنا چاہئے ، مولانا طارق جمیل سخت سے سخت بات نرم خوئی سے کرتے ہیں اور ایک مسلک سے وابستہ ہونے کے باوجود صاف کہتے ہیں کہ فرقوں میں مسلم امہ کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے اور مذہب کو اتنا نقصان اسلام دشمنوں نے نہیں پہنچایا جتنا کہ مذہب کے ٹھیکیداروں نے پہنچایا ہے ۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ بھی چلے جاتے ہیں جن کو معاشرہ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا اور وہ بین المذاہب ہم آہنگی میں بھی پیش پیش رہتے ہیں ۔ ان کی یہی خوبی قابل تقلید بھی۔ اعتدال پسندی کی حوصلہ شکنی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی ہونی چاہئے اگر ایسا نہ ہوا تو پھر دہشت گردی شاید کبھی ختم نہ ہو۔ اس صورت میں دوسروں کے علاوہ ذمہ دار میڈیا بھی ہو گا۔