پاکستانی سیاست و حکومت روز بروز پیچیدہ سے پیحیدہ تر ہو رہی ہے، اس ضمن میں تجزیہ یا رائے زنی حتمی نہیں ہو سکتی کیونکہ حالات و واقعات اپنے دھارے خود بناتے نظر آ رہے ہیں۔اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔انہی حالات میں کچھ اہم اور اہم تر معاملات بھی ہیں،جن کے بارے میں فیصلہ کرنا ضروری بلکہ جبری ہے۔حالات کا جبر یا تدبیر الٰہی کی حاکمیت یا فوقیت یہ ہے کہ جو پچھلے سات آٹھ سال سے انتہائی معتوب تھے‘ آج محبوب نہیں تو حکمران ضرور بن گئے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوا۔جواب ندارد۔البتہ حالات کا گہرا مطالعہ جو کچھ عیاں کرتا ہے۔ اسے واقعاتی انداز میں بیان کرنا ہی بہتر ہے۔تجزیے تبصرے اور قیاس آرائی نامناسب ہو گی کیونکہ انفارمیشن‘ مس انفارمیشن اور ڈس انفرمیشن کا بازار خوب گرم ہے۔ پاکستان میں عام انتخابات پانچ سال بعد ہوتے ہیں جبکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ہر وزیر اعظم کم از کم ایک بار اپنی ترجیحات کے مطابق آرمی چیف ضرور متعین کرتا ہے، نیز جنرل پرویز مشرف کے دور سے بایں دور عام انتخابات کے جملہ اخراجات اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام UNDPکی ذمہ داری ہے راقم نے انتخابی ذمہ داریوں کی ادائیگی تعریف اسناد اور تربیت UNDPکے زیر انتظام سرانجام دی ہیں۔پچھلا الیکشن جولائی 2018ء میں منعقد ہوا اور 14اگست 2018ء کوعمران خان نے بحیثیت وزیر اعظم حلف اٹھایا۔ مذکورہ وزیر اعظم نے 13اگست 2023ء تک وزیر اعظم رہنا تھا اور اگلے دو تین ماہ بعد نیا الیکشن ہونا تھا۔ قرائن کے مطابق جملہ مقتدر طبقہ سابق وزیر اعظم سے خوش و خرم تھا مگر یکدم کیا ہوا کہ سب کچھ وقت سے پہلے الٹ گیا جبکہ سارے مذکورہ دور میں ون پیج تکرار عام تھی۔عام خیال ہے کہ پچھلے وزیر اعظم نے روس کا دورہ کیا تو امریکہ ناراض ہو گیا۔ امریکی دھمکی کا مراسلہ بھی تاشقند کے راز کی طرح ببانگ دھل لہرایا گیا۔روس سے دوستی اور باہمی دورے نئے نہیں ہیں۔ پاکستان کی روس سے دوستی اور تعلقات کا اعادہ یعنی ازسرنو روابط کا آغاز وزیر اعظم محمد خان جونیجو کا جنیوا معاہدہ تھا۔جس کے بعد بینظیر بھٹو نے اپنے دور اول میں باقاعدہ اور اعلانیہ شکست خوردہ روس کے ساتھ روابط بڑھائے اور پھیلائے حتیٰ کہ پاک روس مشترکہ فوجی مشقیں بھی معمول کا حصہ بن گئیں۔امریکہ کو پاک روس تعلقات پر کبھی گلہ یا شکوہ شکایت نہیں رہی۔بلکہ جونیجو کا جنیوا معاہد امریکہ‘ روس اور دیگر عالمی قوتوں اور اداروں کی مشترکہ کوشش سے ظہور پذیر ہوا تھا ۔ وزیر اعظم اور ون پیج یکجہتی عالمی یکجہتی کا شاہکار اور اداکار تھا اور ہے۔جنرل ضیاء الحق دور کے وفاقی وزیر داخلہ نسیم احمد آہیر حیات ہیں۔اور تاحال قومی حافظے کے حامل ہیں۔انہوں نے راقم کو وفاقی وزیر خارجہ نوابزادہ جنرل یعقوب علی خان کے حوالے سے بتایا تھا کہ امریکی ہنری کسنجر کپتان کو وزیر اعظم پاکستان بنانے کے خواہاں اور کوشاں تھے۔مجھے کیوں نکالا؟ کا دوسرا سبب معاشی بدحالی یا قومی معیشت کی بربادی ہو سکتا ہے جبکہ تیسرا سبب کپتان کو پارلیمان میں مضبوط اور طاقتور بنا کر لایا جانا ممکن ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام بلکہ عالم اسلام کے تمام عام مسلمان امریکہ کو شدید ناپسند کرتے ہیں۔جب لیبیا میں مغربی خاکوں کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا گیا تو لیبیا میں متعین امریکی سفیر اپنے چند رفقاء کے ساتھ سڑک پر جلوس کا منظر دیکھنے آ گیا۔ جب احتجاجی عوام کو معلوم ہوا کہ امریکی سفیر قریب موجود ہے، تو لیبیا کی ناراض عوام نے امریکی سفیر کو رفقاء سمیت موقع پر مار دیا۔ دریں تناظر امریکہ مخالف نعرہ عوام میں بکنے کی بھرپور کشش رکھتا ہے۔لہٰذا پارلیمان میں عدم اعتماد کی منظوری سے قبل امریکی غلامی یا حقیقی آزادی کا انتخابی مہم کے لئے نعرہ لگایا گیا اور جلد الیکشن کے حصول کے لئے پارلیمان کو تحلیل کرنے کا کالعدم کر دیا۔ علاوہ ازیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ شریف فیملی سے چھین لینے کے لئے ق لیگ کے چودھری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ نامزد کر دیا ۔لہٰذا پنجاب میں سیاسی جوڑ توڑ اور پارلیمانی عدددی گیم تاحال جاری ہے۔رہا معاملہ نئی وفاقی اتحادی حکومت کا تو اس کا موقف ہے کہ الیکشن مقررہ وقت یعنی اکتوبر یا نومبر 2023ء میں ہوں گے ۔ جلد الیکشن کا مطالبہ ہی انتخابی مہم کے نعرے غلامی یا آزادی کو ثمر بار کر سکتا ہے وگرنہ سال ڈیڑھ یہ نعرہ یا مہم چلتی نظر نہیں آتی۔ موجودہ اتحادی یا مخلوط حکومت کا موقف ہے کہ ہم فقط بجٹ کا بھاری بوجھ اٹھانے نہیں آئے۔ڈوبتی معیشت اور دیوالیہ کے کنارے پر کھڑی ریاست کو سنبھالنے کے لئے کم از کم ڈیڑھ سال کا مینڈیٹ ضروری ہے۔ ڈیڑھ سالہ حکمرانی کے مینڈیٹ میں کئی راز یا حکمتیں پوشیدہ ہیں اور موجودہ حکومت میں اتنی اہلیت صلاحیت اور قابلیت ہے کہ وہ پاکستان کو درپیش جملہ مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ شریف سرکار کی پشت پر چین اپنے جملہ وسائل کے ساتھ دامے درمے سخنے کھڑا ہے۔اگر مغرب یعنی عالمی قوتیں اور ادارے نخرہ کریں گے ،تو چین کو پاکستان میں مدمقابل کے بغیر پاکستان میسر آ جائے گا ۔جو عالمی طاقتوں اور اداروں بشمول امریکہ و آئی ایم ایف کے لئے ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔ علاوہ ازیں نومبر 2022ء تک فوجی ادارے میں اہم ترین تبدیلیوں کی کلید شریف سرکار کے پاس ہے۔ لہٰذا وہ استعفیٰ کیوں دیں اور وہ بھی کپتان کی دھمکی کے دبائو کے تحت ان دو اہم امور نے عالمی اور قومی مقتدر طبقے کی نیت بدل دی۔ یہ کب اور کتنا دبائو برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ وقت بتائے کہ فی الحال عدالت سے شریف سرکار کو ہائی پروفائل تقرر و تبادلوں کے اختیارات سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ جاتے ہوئے ہر چیز جہاں چھوڑ گیا تھا! لوٹا ہوں تو اک دھوپ کا سایہ بھی نہیں ہے