آج 78سال بعد مجھے محسوس ہورہا ہے کہ میری انگلیوں کے نشان ختم ہونے کیساتھ میرا وجود ختم ہوگیا ہے او رمیری خدمات بھی۔ میں زندہ ہوں مگر دورجدید میں سسٹم مجھے تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ میں موبائل فون سم خریدسکتا ہوں اور ناہی بینک اکاؤنٹ کھلواسکتا ہوں۔ 30سال تک سرکاری اسکول میں بطور معلم خدمات سرانجام دے کر ہزاروں بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا مگر اس کے باوجود یہ سسٹم مجھے اور میرے وجود کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ غربت اور کورونا وائرس کے ہاتھوں سے مالی مشکلات سے دوچار حیدرآباد کے ریٹائرڈ ماسٹرجمیل احمد کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔نادرا کے بائیو میٹرک سسٹم نے کئی کوششوںکے باوجود جمیل احمد کے انگوٹھے کے نشان کی تصدیق کرنے سے انکا رکردیا تھا۔ماسٹر جمیل احمد کی آواز بھرآئی۔ آہوںـ‘ سسکیوں اور التجاؤں کے سامنے نورمحمد ہائی اسکول حیدرآباد میں احساس کیش پروگرام کے تحت رقم تقسیم کرنے والا عملے کے پاس افسوس اور معذرت کے سوا کوئی جواب نہیں تھا۔احساس کیش پروگرام کے ذریعے مالی امداد حاصل کرنے کیلئے بائیو میٹرک تصدیق کی شرط لازم ٹھہری تھی۔یہ نوحہ صرف ریٹائرڈ ماسٹر جمیل احمد کا نہیں بلکہ احساس کیش پروگرام کے دوران ہزاروں افراد اس کرب سے گزرے۔ ٹیکنالوجی کی بدولت بائیو میٹرک سسٹم ہماری زندگی کا اہم جزو بن چکا ہے۔موبائل سمز اور پاسپورٹ کے حصولـ‘بینک اکاؤنٹس‘گاڑیوں کی رجسٹریشن اور احساس پروگرام کے لیے بائیو میٹرک سسٹم نہایت اہمیت کا حامل ہے۔بائیو میٹرک نظام میں دھوکہ دہی‘جعلی فنگر پرنٹس ‘انتقال کرنے والے شخص کے فنگر پرنٹس جیسے جرائم کے ساتھ ساتھ 60سال سے زائد عمر کے افراد کے نشانات پہچاننے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ دفاتر میں جعلی حاضریوں‘جعلی پاسپورٹ کا اجرا‘جعلی شناختی کارڈ‘جعلی بینک اکاؤنٹ اور جعلی امیگریشن دستاویزات کا حصول معمول بن چکا ہے۔وفاقی حکومت نے مالی فراڈ‘دھوکہ دہی اور ملکی سلامتی یقینی بنانے کیلئے ٹیلی کام‘بینکنگ اور لینڈ ڈیپارٹمنٹ سمیت مختلف شعبوں میں بائیومیٹرک سسٹم نافذ کیا۔جعل سازوں کی جانب سے شناخت چھپانے کیلئے جدید طریقے اختیار کیے جارہے ہیں۔ جعل سازوں کی جانب سے شناخت چوری کے ساتھ ساتھ لوگوں کی نجی زندگی میں سلیکون مولڈ‘جیلی ٹین اور پلے ڈوو کے ذریعے فنگر پرنٹس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔کسی بھی شہری کی بائیومیٹرک مشین پر انگوٹھے اور انگلیوں کے نشان ایک مخصوص عمل کے ذریعے چوری کرلئے جاتے ہیں۔ ایف آئی اے کو کئی شکایات موصول ہوچکیں ۔ کراچی میں سائبرکرائم کا ماہر گروہ ایسی وارداتیں کرنے میں مصروف ہے۔نادار اور پی ٹی اے کے موجود سسٹم کے باعث 60سال سے زائد کے بزرگ افراد کے انگوٹھے کے نشانات پہچاننے میں مشکلات کے ساتھ ساتھ دیہات کے مزدوروں کی انگلیوں اور انگوٹھے بڑے ہونے کے باعث فنگر پرنٹس پہچاننے میں مشکلات پیش آتے ہیں جس کے باعث انہیں لمبی قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔نادرا کی جانب سے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ‘مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ کی تیاری کے ساتھ ساتھ اضلاع کا ریونیو ریکارڈبھی مرتب کیا جاتا ہے۔ موجودہ ٹیکنالوجی کے ذریعے جعل سازی اور شناخت چرانے جیسے جرائم کو روکنا ناممکن ہوچکا ہے۔شناختی کارڈ میں سکیورٹی فیچر کے دعوؤں کے باوجود غیر ملکی شہریوں کی جانب سے شناختی کارڈ حاصل کیے گئے۔بھارتی اور دوسرے جاسوس پاکستانی پاسپورٹ کے ذریعے باآسانی بارڈر پار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ کورونا وائرس کے دوران وفاقی حکومت نے لاک ڈاؤن کے بعد غریب افراد کی مالی مددکرنے کافیصلہ کیا تاہم ملک بھر میں ہزاروں افراد کی موجودہ بائیومیٹرک سسٹم کی خامیوں کے باعث فنگرپرنٹس کی شناخت نہ ہوئی۔ مستحق افراد سسٹم کے نقائص کے باعث دہائیاں دیتے رہ گئے۔ سوال یہ ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کیلئے کوئی قابل عمل حل موجود ہے ‘جسے ہمارے ادارے باآسانی اپناسکیں اور قومی خزانے وعوام پر کوئی بوجھ بھی نہ پڑے۔جی ہاں! ایسا قابل عمل حل موجود ہے مگر متعلقہ اداروں کی جانب سے صرف ارادے اورمنصوبہ بندی کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ان تمام مسائل کے حل کیلئے ٹیکنالوجی موجود ہے جسے ’’Light Emitting Sensor‘‘کہا جاتاہے۔جدید سسٹم میں پریزنٹیشن اٹیک ریجکشن اور پریزنٹیشن اٹیک ڈی ٹیکشن شامل ہے ۔ پریزنٹیشن اٹیک ریجیک شن کی ایل ای ایس فلمز ٹیکنالوجی کے تحت تصویر پیدا کرنے کیلئے منتقل کرنے والا مواد درکار ہوتا ہے جبکہ لیٹکسـ‘ ربر‘ سلیکون پر مشتمل عام مواد کے ذریعے تصویر پیدا نہیں کی جا سکتی۔پریزنٹیشن اٹیک ڈی ٹیک شن دھوکا دہی کا سراغ لگا کر تھریٹ الرٹ جاری کرتا ہے۔اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہارڈ وئیر اور سافٹ ویئر دونوں کے مسائل حل کیے جاسکیں گے۔ایف اے پی30کے ذریعے بڑی انگلیوں اور انگوٹھوں کو سکین کیا جا سکے گا۔یہ ڈیوائس مختلف سائز میں دستیاب ہے جس کے ذریعے ایک سے دس انگلیوں کو سکین کیا جا سکتا ہے۔ ڈیوائسز کسی بھی موسم میں استعمال کی جا سکتی ہیں اورڈیوائس کو موبائل کی بیٹری سے بھی چلایا جا سکتا ہے۔دنیا کے دیگر ممالک نے جدید آپٹیکل سکینر اور لائٹ امجینگ سینسر پر مشتمل نئی ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کرچکے ۔نئی ٹیکنالوجی میں موجود پریزنٹیشن اٹیک ریجیک شن اور پریزنٹیشن اٹیک ڈی ٹیک شن کے ذریعے با آسانی درست بائیو میٹرک کا تعین اور جعل سازی کا فوری تدارک کیا جا سکتا ہے۔اس ٹیکنالوجی کے ذریعے قومی سلامتی کو محفوظ بنانے میں بھی مدد ملے گی۔نادرا کے ریسورس بیس کو 19794۔ 2سے 19794۔ 4پر منتقل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ غربت اورسسٹم کے ستائے لاکھوں بزرگ شہری اپنے انگوٹھے کے نشان مٹنے پر پریشان تو پہلے ہی تھے اب موجودہ حالات میں انہیں اپنی شناخت کھونے کا کرب جیتے جی درگورکررہا ہے۔ اربوں روپے سالانہ ریونیو کمانے والے نادرا‘پی ٹی اے اوربینکنگ انڈسٹری کی تھوڑی سی توجہ اور درد دل ہزاروں افراد کو شناخت کھونے کے کرب سے بچاسکتا ہے۔