شیریں مزاری کے ساتھ جو ہوا۔وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اگر ان سے کوئی جرم سرزد بھی ہوا تھا تو بھی ان کو اتنی عجلت اور اس طریقہ کار سے گرفتار ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس واقعہ میں یہ بات قابل غور ہے کہ ان کی گرفتاری کے تھوڑی دیر بعد ہی وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے حکم دیا کہ شیریں مزاری جہاں بھی ہیں اور جس ادارے کے پاس بھی ہیں، انہیں فوری رہا کیا جائے۔ اس سے ایک بات تو باآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ اس میں وزیراعظم یا وزیراعلیٰ پوری کارروائی سے لاعلم تھے۔ بنیادی بات یہ تھی کہ آخر شیریں مزاری کو گرفتار کیوں کیا گیا۔ یقینی طور پر ان کیخلاف کوئی کیس ہوگا۔ وہ درست ہے یا غلط اس کا پتہ تو چل جائے گا۔ ابتدائی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پرانا معاملہ ہے‘ یہ راجن پور کا کیس ہے۔ زمین کا تنازعہ ہے۔ جب ان کے والد نے یہ زمین کسی اور نام منتقل کی تھی۔ بہت سے حقائق‘ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں منظر عام پر آجائیں گے۔ اس میں جو بات زیادہ اہم اور قابل غور ہے وہ یہ کہ جب وہ عدالت میں داخل ہورہی تھیں تو انہوں نے کہا کہ مجھے اہلکاروں نے بتایا تھا کہ ا نہیں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے حکم پر گرفتار کیا گیا ہے‘ لیکن عدالت سے ریلیف کے بعد باہر آکر انہوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو مخاطب کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انہیں ایجنسیوں کے ذریعے گرفتار کرایا گیا۔ اس طرح وہ اپنے اس بیانیے کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہی ہیں، جس کے تحت عمران خان اور پی ٹی آئی کے دوسرے رہنما اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کی ایماء پر اسٹیبلشمنٹ نے امریکی سازش کے تحت عمران حکومت گرانے میں معاونت کی۔ یہ کتنی ذمہ داری کی بات ہے کہ بعض اندازوں کے تحت ہی کسی پر یہ الزام دھر دیں۔ یہ ہماری سیاست میں بہت منفی رجحان چل پڑا ہے کہ کوئی نہیں تو ایجنسی ہوگی۔ یہ بہت غلط روایت ہے۔ ایمان مزاری نے بھی اس سے پہلے جو بیانات ٹوئٹر پر دیئے وہ بھی بغیر کسی ثبوت کے محض غیر ذمہ داری سے بات کی۔ بہرطور پاکستان کے اداروں نے ہی انہیں فوری ریلیف فراہم کیا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بغیر کوئی ثبوت کے ڈاکٹر شیریں مزاری اداوں کے خلاف بڑے جارحانہ ٹوئٹس کرتی رہی ہیں۔ پی ٹی آئی اور شیریں مزاری کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ بغیر ثبوت کے وہ اندھا دھند بنا سوچے سمجھے اور ان کے مضمرات پر نظر رکھے بغیر بس اپنی بات کہتے جاتے ہیں۔ غیر ذمہ داری اور وہ بھی ذمہ دار لوگوں سے ہو تو اس پر افسوس ہوتا ہے۔ خان صاحب آپ کوئی انٹریٹنر تو نہیں کہ آپ اپنے سامعین کو ایسی ذمہ دارانہ باتیں کرکے لبھارہے ہوں۔ میری سمجھ نہیں آیا کہ یہ آئیڈیا آپ کے دماغ میں کہاں سے آیا۔آپ نے ایک ایسی بات کہہ دی کہ آپ کو فالو کرنے والے سوشل میڈیا کے جیالوں نے شہہ پاکر اس سے دو قدم آگے بڑھ کر اس کی تشریح کیلئے جو طریقہ اپنایا اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے الفاظ کی ادائیگی سے آپ کا قد بلند نہیں ہوتا آپ پر بے شمار سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تنقید کے تیر برسنے لگتے‘ لوگ آپ پر طرح طرح کی باتیں شروع کردیتے‘ آپ ایک مقبول لیڈر ہیں۔ آپ کو معاشرے اور سماج میں اچھی روایات قائم کرنی چاہئیں۔اب ہم اس بات کا جائزہ بھی لیتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں خواتین سیاستدانوں کے ساتھ کیا رویہ رکھا گیا۔ بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایوب خان کے دور میں جب محترمہ فاطمہ جناح نے ان کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو اس مہم کے دوران بابائے قوم کی ہمشیرہ کے خلاف ایوب خان کے وزراء نے جو زبان استعمال کی ان پر جو الزامات لگائے میں یہاں تو انہیں نہیں دہراسکتا۔ ہاں ایک بار جب میں 35 برس قبل جنرل اعظم کی سوانح حیات لکھ رہا تھا، اس وقت وہ ان لغو اور بیہودہ اور شرمناک باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے رو پڑے تھے۔ جنرل اعظم وہی تھے جنہوں نے ایوب خان کو اقتدار دلانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان کے متعلق اس وقت بہت سی باتیں کی گئیں۔ جب بھٹو صاحب کے دور میں وہ سندھ کی گورنر تھیں۔ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں جئے سندھ کے طلبا نے پوری یونیورسٹی میں ان کے جن القابات کے ساتھ بینر لگائے تھے،میرے قلم میں ہمت نہیں کہ ان کا تذکرہ کرسکوں۔ عمران خان یہ بات تو سمجھیں کہ یقینا مریم ان کی سیاسی حریف ہے‘ وہ مریم کے والد اور چچا کو غدار‘ لٹیرا‘ ڈاکو‘ مقصود چپڑاسی نہ جانے کن کن الفاظ سے نواز رہے ہیں‘ لیکن کرپشن اور لٹیرے والی بات آپ چار سال میں ثابت کیوں نہ کرسکے۔ چلیں آپ یہ باتیں کرتے رہے‘ بیچنے کیلئے یہ منجن بکتا ہے۔ لیکن آپ نے جس طرح مادر پدر آزاد ہوکر جوکہا اس کا آپ کو شاید اندازہ نہیں ہے۔ آپ جس طرح چاروں طرف فائر کررہے ہیں اس سے کوئی بھی نہیں بچ رہا۔ آپ ہر کسی کو رگڑ رہے ہیں۔ بس کریں۔ کہیں نہ کہیں رک جائیں۔ معاشرے میں جو کچھ اخلاقی قدر بچ گئی ہے اس کو رہنے دیں۔ اگر جو لوگ آپ کو پسند کرتے ہیں ان کی دلیل منطق شعور کو اس طرح ڈھالیں کہ ان سے اخلاقیات کا کوئی نہ کوئی درست ملتا ہو۔ رسیاں پھلانگنا‘ ریڈ لائن کراس کرنا اور حدیں عبور کرنا اخلاقیات کی کسی لغت میں قابل قبول نہیں۔ خدارا سب سے گزارش ہے اپنی اپنی شخصیت کو خراب نہ کریں۔ یہ کتنا قابل غور پہلو ہے کہ اس ملک کے حکمران کیلئے مقابلہ اچھائی میں نہیں برائی میں ہورہا ہے۔ واہ واہ کیا کہنے آپ لوگوں کے۔