مولانا فضل الرحمن‘ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز جن دو باتوں پر متفق ہوئے ان میں سے ایک چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو ہٹانا اور دوسری وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں منظور نہ ہونے دینا تھا۔ ایک حکمت عملی اختیار کی گئی۔ جو پی ٹی آئی رکن کسی وجہ سے اپنے عہدے سے ہٹایا گیا یا تبدیل کیا گیا اس سے ہمدردی کی آڑ میں اسے عمران خان سے بیزار کرنے کی کوشش کی گئی۔ بلاول بھٹو نے فواد چودھری کو راہ چلتے روک کر معانقہ کیا۔ پنجاب اسمبلی میں نیب کی حراست میں صوبائی وزیر سبطین خان آئے تو بزرگ لیگی رکن ذکیہ شہنواز نے ان سے ہاتھ ملایا۔ خواجہ آصف ایوان میں متعدد بار اسد عمر اور فواد چودھری سے ہمدردی جتا چکے ہیں۔ مگر یہ فرینڈلی فائر خطا گئے۔ اپوزیشن کی اے پی سی کو اسی لئے ناکام قرار دیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اپنے مفادات ابھی ساری اپوزیشن کے مجموعی مطالبات کی شکل میں نہیں ڈھل سکے۔ اسمبلیوں سے فوری استعفیٰ مولانا فضل الرحمن کی خواہش ہو سکتی ہے کیونکہ وہ اور ان کے بھائی حکومتی مراعات سے محروم ہو چکے ہیں۔ اب تو وہی کچھ کھانے کو ملتا ہو گا جو نذر نیاز میں آ گیا۔ مریم نواز کا معاملہ الگ ہے وہ اے پی سی کو سیاسی لحاظ سے دیکھ ہی نہیں رہی تھیں۔ ان کے پیش نظر حکومت پر ایسا دبائو بنانا ہے کہ نواز شریف کو چھوڑ دیا جائے۔ مریم نواز چاہیں تو وہ بے نظیر بھٹو کی حکمت عملی اختیار کر سکتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جب سزائے موت کا فیصلہ ہوا تو پیپلز پارٹی نے لندن میں جیورسٹس کانفرنس بلائی۔ چھ اور سات اپریل 1979ء کو ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستان اور دوسرے ممالک سے نامور قانون دان اور اعلیٰ عدلیہ کے جج رہنے والی شخصیات شریک ہیں۔ بھٹو صاحب کو سزا کے فیصلے کے قانونی پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا اور سب نے اسے تعصب اور انتقام پر مبنی قرار دیا۔ بھٹو صاحب کے دونوں بیٹوں نے جلا وطنی کے دوران والد کی رہائی کے لئے جو قانونی جمہوری طریقہ کار اختیار کیا جیورسٹس کانفرنس ان میں سے ایک تھی۔ مریم نواز کے اتالیق پرویز رشید تو اس تاریخ سے واقف ہوں گے۔ نواز شریف بہت عرصہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا غوغہ کرتے رہے ہیں۔ مریم نواز اور ان کا جتھہ بھی عدالتی فیصلوں کو سیاسی انتقام قرار دیتا رہا ہے۔ نواز شریف کو سزا دینے والوں کی نیت پر شک ہے انہیں شکایت ہے کہ عدالت سے ماورا کوئی نظام ہے جو ان کو سزا دلانے کے لئے متحرک ہے۔ ایسا ہے تو پھر حسین اور حسن نواز کی قانون کی تعلیم کس دن کام آئے گی‘ لندن کے بینکوں میں جمع خزانے کس پر لٹانے ہیں؟ مولانا فضل الرحمن اپنے دس بارہ ساتھیوں سمیت لندن جیسا دور دراز سفر کرنے کو تیار ہو جائیں گے‘ صرف نواز شریف کی ہمدردی میں۔ کچھ برطانوی جج مدعو کریں‘ امریکی ججوں کو دعوت دیں‘ بھارت کی اعلیٰ عدلیہ میں بہت انصاف پسند جج رہے ہیں ان کو بلائیں‘ ۔یورپئین جسٹس سسٹم مثالی ہے۔ پھر وہ انسانی حقوق کا بے حد خیال رکھتے ہیں‘ ان کو بھی بلا لیں۔ پاکستان سے تو خیر کئی سابق جج آپ کے بھیجے ٹکٹ اور ہوٹل کی بکنگ پر تیار بیٹھے ہیں۔ وہ اقتدار میں آپ کے محافظ تھے‘ ریٹائر ہونے کے بعد آپ کے مشیر ہیں۔ مگر اس طرح کی کانفرنس نہیں ہو گی‘ اس لئے کہ نواز شریف بھٹو نہیں اور مریم نواز بے نظیر بھٹو کے ہم پلہ نہیں۔ بھائی لوگو! بجٹ تو پاس ہو گیا‘ آپ کچھ نہ کر سکے۔ ساری قوم قرضوں سے نجات اور معیشت کی بحالی کی فکر میں ہے۔ لاکھوں افراد نے ایمنسٹی سکیم کے فارم جمع کرائے ہیں۔ ملک ایک ایسے خاموش انقلاب سے گزر رہا ہے جس میں ہر امیر غریب ریاست کا خزانہ بھرنا چاہتا ہے۔ ٹیکس والے بتاتے ہیں کہ ٹیکس گزاروں کی تعداد پچاس لاکھ سے اوپر جانے کا امکان ہے۔ یعنی بیس لاکھ ٹیکس دہندگان جو 3400ارب کا ٹیکس دے رہے تھے اب ٹیکس کی رقم کم از کم دوگنا‘6800ارب روپے تک جمع ہو سکتی ہے۔ بجٹ میں ٹیکس ہدف 5500ارب روپے رکھا گیا ہے۔ قوم معاشی تعمیر نو میں مصروف ہے‘ اسے غرض نہیں کہ کس کا ابو کیا کہہ رہا ہے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کا معاملہ اے پی سی میں آیا تو اپوزیشن جماعتیں جھگڑ پڑیں۔ اے این پی کا مطالبہ ہے کہ آئندہ چیئرمین بلوچستان سے نہ لیا جائے‘ اچکزئی صاحب کی جماعت کی مانگ ہے کہ یہ عہدہ بلوچستان اور ان کی جماعت کو دیا جائے۔ جب دال بٹنے لگی تو مولانا نے اس تنازع کو رہبر کمیٹی میں بھیجنے کا اعلان کر دیا۔ رہبر کمیٹی کی تشکیل میں مولانا فضل الرحمن عجلت چاہتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ باقی جماعتیں بھی عجلت پسند ہوں۔کچھ کا تو باقاعدہ اعتقاد ہے کہ عجلت شیطان کا کام ہے۔ صادق سنجرانی ریاست کے بندوبستی ڈیزائن کا حصہ ہیں۔ ان کو ہٹانا ممکن نہیں۔ حزب اختلاف کے پاس سینٹ میں اکثریت ہے۔ وہ کوشش کر دیکھے۔ سینٹ میں اکثریت رکھنے والی اپوزیشن چیئرمین سینٹ کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ محال ہے۔ صادق سنجرانی کو ہٹا بھی دیا گیا تو چیئرمین ن لیگ یا مولانا فضل الرحمن کے مفادات کا محافظ نہیں آئے گا۔ پیپلز پارٹی پر صادق سنجرانی کے معاملے میں سخت تنقید ہوتی رہی ہے‘ آصف علی زرداری پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگا‘ کیا کیا تہمتیں نہ آئیں۔ صادق سنجرانی کو ہٹانے کا مطلب پیپلز پارٹی کی پارلیمانی طاقت کم کرنا ہے۔ کیا ایسی تبدیلی کو پی پی قبول کرلے گی۔ بلاول نے اے پی سی میں جو کہا وہ رپورٹ نہیں ہوا۔ جس پر خاموش رہے‘ ازراہ مروت۔ وہ ان کا موقف بنا کر پیش کر دیا گیا۔ اس لئے کہ اے پی سی کا بھرم رہے‘ وگرنہ اے پی سی تو پیدائش سے پہلے ہی مر گئی تھی۔ صادق سنجرانی آصف زرداری کے امیدوار ہیں‘ آصف علی زرداری کے۔کوئی اور بھی انہیں اپنا امیدوار سمجھتا ہے۔ لہٰذا مولانا اور مریم نواز والی اے پی سی کوئی ہدف پورا نہ کر سکی‘ یہی ناکامی کہلاتی ہے۔