آئینی اداروں کے درمیان کسی تنازع کو جلد طے نہ کر لیا جائے تو نئے تنازعات کا پیدا ہونا لازم ہو جاتا ہے۔کئی ہفتوں سے پاکستان الیکشن کمیشن اور حکومت کے مابین انتخابی اصلاحات اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے پر اختلاف ایک نوع کے جھگڑے میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔حکومت نے اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کو واضح انداز میں کہا کہ وہ انتخابی عمل کو دھاندلی کے الزامات سے بچانا چاہتی ہے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کئی اعتبار سے انتخابی عمل کو شفاف رکھ سکتی ہے۔اگر اس پر اعتراضات ہیں تو وہ حکومت کے سامنے رکھے جائیں تاکہ انہیں دور کیا جا سکے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے‘اس کا سربراہ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت سے مقرر کیا جاتا ہے۔موجودہ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر میں وزیر اعظم عمران خان کی مشاورت شامل تھی۔تحریک انصاف نے اپوزیشن کے طور پر انتخابی شفافیت کے لئے تمام جماعتوں سے زیادہ کام کیا جس کا اعزاز اسے دیا جاتا ہے۔خاص طور پر 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج کو ناقابل قبول قرار دے کر اسلام آباد میں طویل دھرنا دے کر ثابت کیا کہ سیاسی جماعتیں اس اہم معاملے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکیں۔یہ صورت حال اس لحاظ سے زیادہ تشویشناک ہے کہ ہر اپوزیشن جماعت جب اقتدار میں آئی وہ انتخابی اصلاحات کے وعدوں کو بھول گئی۔ہارنے والی جماعتیں ہر انتخاب کے بعد دھاندلی کا الزام عاید کر دیتیں۔بعض اوقات دھاندلی کے واقعات بڑے واضح اور ٹھوس ثبوت کے ساتھ سامنے آئے لیکن عدالتی عمل اس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ دھاندلی کی تحقیقات‘سماعت اور فیصلے تک آتے آتے پانچ سال پورے ہو جاتے ہیں۔اس دوران دھاندلی کرنے والے طاقتور ہوں تو پہلے مرحلے پر ہی الزامات مسترد کر دیے جاتے ہیں۔تحریک انصاف کے ساتھ یہی ہوا تھا 2013ء کے انتخابات کے نتائج کے خلاف الیکشن کمیشن کو درخواست دی گئی جسے رد کر دیا گیا‘عدالت سے رجوع کیا گیا وہاں بھی شنوائی نہ ہوئی، پارلیمنٹ کو بالادست ادارہ تسلیم کر کے ایوان میں معاملہ اٹھایا گیا لیکن عددی اکثریت کے ہاتھوں یرغمال پارلیمنٹ کوئی کردار ادا نہ کر سکی۔آخر احتجاج ہوا۔احتجاج کے خاتمہ پر اپوزیشن کو راستہ دیا گیا کہ وہ عدالت سے رجوع کرے‘عدلیہ نے چار حلقوں کو کھولنے کا حکم دیا جہاں صرف ووٹوں کی پڑتال کے دوران بے قاعدگیوں کی شکایت سچ ثابت ہوئی۔چند ماہ قبل ڈسکہ میں ضمنی انتخاب تھا۔اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن نے انتخاب کے بعد نتائج جمع کرنے کے نظام پر سوال اٹھایا اور عدلیہ نے دوبارہ الیکشن کا حکم دیا۔موجودہ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو دھاندلی سے جتوایا گیا ہے۔حکومت اور اپوزیشن انتخابی دھاندلی اور نظام کی غیر شفافیت پر متفق ہیں لیکن اس خرابی کا علاج کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون پر آمادہ نہیں۔انتخابی شفافیت کا مطالبہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے کئی بار مصلحت کا شکار ہو جاتا ہے لیکن الیکشن کمیشن جیسا ادارہ یہ ذمہ داری نبھاتا ہے کہ انتخابات پرامن‘شفاف اور قابل بھروسہ ہوں۔آئین نے اس ادارے کے ذمے جو امور لگائے وہاں کارکردگی اس لحاظ سے غیر تسلی بخش ہے کہ انتخابی عمل کو دھاندلی سے پاک کرنے کے متعلق الیکشن کمیشن نے ازخود کبھی کوئی منصوبہ یا تجویز پیش نہیں کی۔ماضی میں یہ آئینی ادارہ کئی بار مختلف سکینڈلز کی زد رہا ہے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا خیال شاید اس لئے تقویت پکڑتا گیا کہ الیکشن کمیشن اور حکومتوں نے عوام کے حق رائے دہی کی حفاظت اور احترام کا کوئی قابل بھروسہ نظام ترتیب نہیں دیا۔حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ کی تجویز دی تو الیکشن کمیشن نے اس پر 37اعتراضات وارد کئے جن میں بڑے پیمانے پر انتخابی سرگرمی کے لئے وقت نہ ہونا‘ووٹ کی راز داری نہ ہونا‘شفافیت نہ ہونا‘آزمائشی سطح پر غیر تسلی بخش کارکردگی‘بھاری اخراجات‘مشین کی ہیکنگ اور ٹمپرنگ‘ووٹر کا غیر تربیت یافتہ ہونا‘انتخابی تنازع میں شہادت نہ ہونا‘گلوبل ای سی او سٹینڈرڈز کا خیال نہ رکھنا اور کئی ممالک کی طرف سے غیر تسلی بخش کارکردگی پر ووٹنگ مشین کا استعمال بند کرنے جیسے اعتراضات شامل ہیں۔کئی اعتراضات معقول اور درست ہیں جن کا حل حکومت سے طلب کیا جا سکتا ہے لیکن یہ معاملہ چیف الیکشن کمشنر اور وزراء کے درمیان لڑائی میں بدلتا جا رہا ہے۔دو اہم وزراء نے ایک میٹنگ میں جو کچھ کہا اس پر الیکشن کمیشن نے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔اب حکومت کہہ رہی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر انتخابی اصلاحات کے مخالف اور اپوزیشن کی زبان بول رہے ہیں۔حکومت کا کہنا ہے کہ ووٹنگ مشین پر ترتیب دی گئی رپورٹ میں مثبت ڈیٹا ضائع کر دیا گیا جبکہ اعتراضات کو نمایاں کیا گیا ہے۔وزیر اطلاعات فواد چودھری نے الیکشن کمیشن کے دیگر ممبران سے کہا ہے کہ وہ خود ووٹنگ مشین کا جائزہ لے کر فیصلہ کریں۔جمہوری نظام کی بنیاد ووٹ پر رکھی گئی ہے۔ووٹ کو ہر قسم کے دبائو‘دھاندلی اور خرابی سے بچانے کیلئے الیکشن کمیشن کی شکل میں ادارہ قائم کیا گیا۔انتخابی دھاندلی کے مسلسل الزامات نے ووٹ کا تقدس مجروح کیا ہے۔یہ تبصرہ عام کیا جاتا ہے کہ ووٹ کسی کو ڈالے جاتے اور جیت کوئی اور جاتا ہے۔ممکن ہے الیکشن کمیشن خلوص نیت کے ساتھ حکومت کی تجاویز کو ناقابل عمل سمجھتا ہو۔لیکن یہ خلوص نیت اب تک پاکستان کے عوام کا ووٹنگ کے نظام پر اعتبار قائم نہیں کرا سکا۔لازم ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن آپس میں جھگڑنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے وہ کام کریں جس کیلئے انہیں اختیار اور مینڈیٹ ملا ہے۔وزراء کرام اس سلسلے میں ماحول کو ٹھنڈا کر کے آگے بڑھ سکتے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ تنازعات بین الاقوامی ہوں یا قومی ان کا حل مذاکرات اور بات چیت سے نکلتا ہے جھگڑے سے نہیں۔