ہمارے بعض صحافی ساتھیوں کو وزیراعظم عمران خان کی حکومت گرانے میں اپوزیشن جماعتوں سے کہیں زیادہ دلچسپی ہے۔ بعض دوستوں نے موجودہ حکومت بننے کے ایک سال بعد ہی کالم لکھنے شروع کردیے تھے کہ کھیل ختم ہوگیا ہے‘ پارٹی از اوورلیکن ایسا نہیں ہُوا۔ اب بھی حکومت جانے کی پیشین گوئیاں کرنے میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے بعض افراد پیش پیش ہیں۔ مجھے صحافت میں بتیس برس ہوگئے ۔ پہلے دن سے دیکھ رہا ہوں کہ عام انتخابات کے بعد جو حکومت آتی ہے جلدہی کچھ صحافی اس کے گرانے کی کوششوں میں عملی طور پر شریک ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں میڈیا کے بعض لوگ صرف صحافت نہیں کرتے بلکہ عملی طور پر سیاست میں شریک ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض نامور صحافی اپنی خدمات کے عوض مختلف حکومتوں میں وزیر بنے یا دیگر اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔میرے ایک مدیر تھے جو بے نظیر بھٹو کی حکومت کی کرپشن پر زوردار اداریے لکھتے اور مضامین شائع کرتے تھے۔ ایک نگران حکومت بنی تو اس میں احتساب کے مشیر بن گئے اورعالمی میڈیا میں انٹرویوز دیتے ہوئے بے نظیر بھٹو کی مبینہ کرپشن کی داستانیں سناتے تھے۔ بعد میںحالات بدلے تو بے نظیر بھٹو کے ہمدرد بن گئے۔ ایک زمانے میں نواز شریف کی مبینہ کرپشن پر کالم لکھتے ‘ رپورٹیں شائع کرتے تھے۔بعدمیں نواز شریف سے دوستی کرلی ۔ نگران وزیراعلیٰ بن گئے۔ کھیلوں کے ایک بڑے ادارہ کے سربراہ بنادیے گئے۔ اب ہاتھ دھو کر عمران خان کے پیچھے پڑے ہیں۔ آئے دن ان کی حکومت جانے کی تاریخیں دیتے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ اسوقت جو صحافی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف سرگرم ہیں ان میں سے بیشتر یا تو امریکہ نواز ہیںیا بھارت نواز۔ کچھ ایسے ہیں جو پاکستان کے ریاستی اداروں کے شدید مخالف ہیں اور ملک کی ہر خرابی کا ذمہ دار ریاستی اداروں کو ٹھہراتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے بہت سے صحافی حضرات کو جانتا ہوں جنہوں نے پاکستان کے ریاستی اداروں سے قریبی تعلقات بنائے ۔ ان سے فائدے اٹھائے۔ اس تعلق کے باعث اپنے اثر و رُسوخ میں اضافہ کیا۔ان کی پالیسیوں اور بیانیہ کو فروغ دیا۔ لیکن جب ان کا قد کاٹھ بڑا ہوگیا۔ اُن کی توقعات اور مفادات کسی اور جگہ وابستہ ہوگئیں تو ریاستی اداروں کے خلاف مہم چلانا شروع کردی۔ ریاستی اداروں کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ جب تک کوئی سرخ لکیر عبور نہ کرے وہ خاموش رہتے ہیں۔ریاست کے کام میں دوست اور دشمن بدلتے رہتے ہیں۔بعض لوگوں کی خواہشات اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ انہیں پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ وہ ناراض ہو کر اپنی قبلہ بدل لیتے ہیں۔ بعض لوگ جب قومی سطح پر نام بنالیتے ہیں تو چاہتے ہیںکہ عالمی سطح پر ان کی پذیرائی ہونے لگے۔ انہیںامریکہ اور یورپ میں پاکستان میں آزادی اظہار ‘ جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر پہچانا جائے۔ بین الاقوامی رتبہ حاصل ہوجائے۔ لبرل جمہوری دنیا کے مذہب میں جمہوریت‘ میڈیا کی آزادی‘ عورتوںاور اقلیتوں کے حقوق کی بہت اہمیت ہے۔ یہ وہ بنیادی عقائد ہیں جن پر بظاہر مغربی تمدن کی بنیاد ہے۔ جو ان معاملات پرآواز اٹھائے گا مغربی دنیا اُسے ہاتھوں ہاتھ لے گی۔ صحافیوں اور میڈیا کی حکومت گرانے میں دلچسپی کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک اہم وجہ کچھ صحافیوں کے ذاتی مفادات ہیں۔میڈیا کے بعض نامور لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو ان کی سرپرستی کرنی چاہیے۔ ان کی سفارش پر ایسے کام کیے جائیں جن سے ان کو فائدہ پہنچ سکے۔ہمارے بعض ساتھیوں کی اَنا اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ حکومت کا گاڈ فادر بننا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ حکومت ہر کام میں ان سے مشورہ کرے اور وہی اقدامات کرے جو وہ تجویز کریں۔ہر معاملہ میں ان کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ ہوسکے تو اہم عہدوں پر تعیناتیاں بھی ان کی مشاورت سے کی جائیں۔ انہیں وہی وی آئی پی رتبہ حاصل ہو جو وزراء کو دیا جاتا ہے۔اگر حکمران سینئیر صحافیوں کی اَنا کو مسکا لگانے کا ہنر نہیں جانتا تو اسکی زندگی مشکل بنانے کا فن اُنہیں آتا ہے۔عمران خان خودسُپر اسٹار ہیں ۔ وہ کسی کو زیادہ خاطر میں نہیں لاتے۔ ان کی زیادہ مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔پہلے وزرائے اعظم بیرونی دوروں پر صحافیوں کے ہجوم ساتھ لے جاتے تھے ۔ اب ایسا نہیںہوتا۔ ہمارے ہاں ایسے سیاسی کلچر نے فروغ پایا ہے جس میںغلط یا صحیح طورپر صحافت اور سیاست گڈ مڈ ہوگئے ہیں۔ بعض کالم نویس مختلف جماعتوں کے لابئسٹ ہیں۔بعض کسی وزیراعظم یا سیاسی لیڈرکے لیے باقاعدہ تقریر لکھنے کا کام کرتے رہے۔ کچھ لوگ سفیر بنے۔بعض صحافی مختلف سرکاری اداروں کے سربراہ رہے۔ سینٹ کے رکن بنے۔ کئی لوگ کالجوں میں سرکاری استاد کے طور پر کام کرتے رہے ساتھ ساتھ اخباروں میں رپورٹنگ کرتے رہے۔ میں نہیں کہتا کہ یہ غلط ہے یاصحیح لیکن یہ ہماری صحافت اور سیاست کی ایک نا قابل انکار حقیقت ہے۔ صحافیوں کی واضح سیاسی وابستگیاں ہیں۔ نوازشریف ا ور آصف زرداری کی خوبی سمجھی جاتی ہے کہ وہ اپنی حمایت کرنے والے کسی شخص کو محروم نہیں رکھتے۔ جس نے ان کا ساتھ دیا وہ خوب فیض یاب ہوا۔ اب اگر ان میں سے کسی کی حکومت بن جاتی ہے تو جو لوگ موجودہ حکومت کو رخصت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں انہیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں انہیں بھی فائدہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیںحکومت گرانے میں میڈیا سے وابستہ افراد کی گرمجوشی نمایاں نظر آتی ہے۔ بہرحال کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نظریاتی طور پر عمران خان کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن وہ حکومت کی چھٹی کرانے کی تاریخیں نہیں دے رہے۔صرف ان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ کسی حکومت پرمثبت تنقید کرنا حکومت کے لیے فائدہ کی بات ہے۔ اس سے حکومت کو اپنی خامیوں کا پتہ چلتا ہے اور وہ اپنی کارکردگی بہتر بناسکتی ہے۔ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ میڈیا اور صحافیوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وقت سے پہلے حکومت گرانا ان کا فریضہ ہے۔ یہ تباہ کن سوچ ہے۔ اگر ہم ملک میں جمہوریت اور آئین کی حکمرانی چاہتے ہیں توہمیں ایسی حکومت کو بھی برداشت کرنے کی عادت ڈالنا ہوگی جو ہمیں پسند نہیں۔جب وہ مقررہ مدت پوری کرلے تو قانون کے مطابق الیکشن ہوں ۔ عوام جسے چاہیں اگلی مدت کیلیے منتخب کرلیں۔ افواہیں پھیلا کر اور سازشوں کے ذریعے حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے سے جمہوریت نہیں پنپ سکتی۔ اس کا نقصان میڈیا اور صحافت کو بھی ہوگا۔