وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قبائلی اضلاع سے غربت کا خاتمہ اور ان کی ترقی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ صحت انصاف کارڈ غریب گھرانوں کے لیے بیماری میں بڑاسہارا ہوں گے۔ ہیلتھ کارڈ کے ذریعے ہر خاندان کو 7 لاکھ 20 ہزار روپے تک علاج کی سہولت حاصل ہوگی۔ دوسری جانب صوبہ سندھ میں ینگ ڈاکٹرز کئی روز سے ہڑتال پر ہیں جس کے باعث دو مریض جاں بحق اور کئی ہسپتالوں میں بے یارومددگار پڑے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک میں صحت کی سہولتیں آبادی کے تناسب سے ناکافی ہیں۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں 70 سال میںدو تین ہسپتالوں کے سوا کوئی بھی بڑا ہسپتال قائم نہیں ہوا جبکہ پہلے سے موجود ہسپتالوں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنے دس سالہ دور اقتدار میں میو ہسپتال کے سرجیکل ٹاور کو اس وجہ سے مکمل نہ ہونے دیا کہ اس کا سنگ بنیاد سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ سپیکر صوبائی اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے رکھا تھا۔ اس طرح وزیر آباد کے کارڈیالوجی ہسپتال کو بھی بند رکھا گیا۔ مسلم لیگ ن نے دعوے تو بڑے کئے تھے لیکن اقتدار میں آ کر وہ تمام وعدوں اور دعوئوں کو بھول گئی جس کے باعث عوام جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے رہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ہیلتھ کارڈ جاری کئے تھے جو بیروزگاری اور غربت کی چکی میں پسے عوام کو کماحقہ ریلیف نہ فراہم کر سکے کیونکہ ایک طرف مہنگائی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ انسان صبح سے لے کر شام تک محنت مزدوری کرنے کے باوجود اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پا ل سکتا تھا۔ دوسری طرف مسلم لیگی دور میں جاری ہونے والے ہیلتھ کارڈ پر آپ بمشکل 3 لاکھ روپے تک علاج معالجہ کروا سکتے تھے اور کارڈ محض 30 لاکھ افراد کے لیے تھے لیکن تحریک انصاف نے جو ہیلتھ کارڈ جاری کئے ہیں ایک طرف ان کی قیمت 7 لاکھ 20 ہزار روپے ہیں۔ دوسری طرف کارڈ سے ساڑھے تین کروڑ افراد مستفید ہوں گے اور امید ہے کہ جلد ہی یہ کارڈ ملک بھر میں جاری کردیئے جائیں گے۔ تحریک انصاف نے پہلی بار قبائلی علاقہ جات کے پانچ لاکھ خاندانوں کو ہیلتھ کارڈ فراہم کئے ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے منشور میں غربت میں کمی‘ کرپشن کے خاتمے اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر وہ کاربند ہے۔ ماضی میں ہر سیاسی پارٹی نے انتخابات کے دنوں میں بڑے دعوے اوروعدے کئے‘ تین ماہ میں لوڈشیڈنگ کے جن کو بوتل میں بند کرنے کی باتیں کر کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کیں لیکن موجودہ حکومت نے ان سات میں جو وعدے کئے تھے ان کو عملی جامہ پہنانے پر کام شروع کیا ہے جو خوش آئند ہے۔ تحریک انصاف کی مرکز کے علاوہ پنجاب اور خیبر پی کے میں بھی حکومت ہے جبکہ بلوچستان میں باپ پارٹی کے ساتھ مل کر انہوں نے حکومت تشکیل دے رکھی ہے۔ اس لیے ان صوبوں میں تو ترجیحی بنیادوں پر صحت کی سہولتوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی اگر بلوچستان بھر میں اس منصوبے کو پھیلا دے تو وہاں کے باسیوں کے لیے یہ بہت ہی بہتر اقدام ہوگا کیونکہ بلوچستان بھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں‘ وہاں کے ہسپتالوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اسی طرح گلگت بلتستان کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا جائے۔ وہاں پر بھی روزگار کے مواقع بہت کم ہیں۔ اس کے علاوہ آزادکشمیر تک اس پروگرام کو پھیلایا جائے‘ کشمیری عوام کو احساس تنہائی نہیں ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف صحت کی سہولتوں کو ملک بھر میں پھیلانے کا عزم رکھتی ہے لیکن پیپلزپارٹی سندھ میں اس کے راستے میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ آج سندھ کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں کے ہسپتالوں میں صحت کی سہولتیں عوام کے لیے ناکافی ہیں۔ مسلم لیگ ن کی طرح پیپلزپارٹی دس سال سے سندھ میں اقتدار میں ہے لیکن وہ سندھی عوام کی قسمت نہیں بدل سکی۔ پیپلزپارٹی کا المیہ یہ ہے کہ وہ نہ خود کام کرتی ہے نہ ہی کسی اور جماعت کو کرنے دیتی ہے۔ سندھ بھر کے ینگ ڈاکٹرز نے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج شروع کر رکھا ہے لیکن سندھ حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی جبکہ مریض ہسپتالوں میں تڑپ تڑپ کر جانیں دے رہے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ انہیں بھی پنجاب اور خیبر پی کے کے ڈاکٹرز جیسی مراعات دی جائیں یہ کوئی انوکھا مطالبہ نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ہی جو ینگ ڈاکٹرز کو مراعات دی جا رہی ہیں۔ انہیں بھی دینی چاہئیں کیونکہ سندھ حکومت این ایف سی ایوارڈ میں پورا پورا حصہ وصول کرتی ہے۔ اگر وہ پیسے وہاں کے عوام اور ملازمین پر خرچ نہیں ہوں گے تو پھر حکمران طبقہ آپس میں بندربانٹ کرے گا اور ماضی میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز کا مطالبہ جائز ہے اس پر ہمدردانہ غور کرنا چاہیے۔ سندھ کا المیہ ہے کہ صحت کے شعبے میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ تک کوئی بھی بازپرس نہیں کرسکتا۔ آصف علی زرداری کی بہن اور بلاول کی پھوپھی عذرا افضل پیچو کے پاس وزارت صحت کا قلمدان ہے جو کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہیں۔ جس کے باعث ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ بیٹھ کر کوئی شخص اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ بلاول زرداری اس سلسلے میں کردار ادا کریں۔ پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے وہ سندھ میں شعبہ صحت کو لاوارث چھوڑنے والوں سے جواب طلبی کریں اور سندھ بھر میں وفاقی حکومت کے ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کے راستے میں روڑے مت اٹکائیں۔ اگر عوام کے ساتھ یہی سلسلہ رہا تو مسائل پیدا ہوں گے اور پیپلزپارٹی کو مستقبل میں اس صوبے میں بھی جگہ نہیں ملے گی لہٰذا بلاول زرداری اپنی مستقبل کی سیاست کو محفوظ رکھنے کے لیے سندھی عوام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔