کرائے کے مکان میں رہنے والے مالک مکان کے لیے آزار کا سبب بنتے ہیں۔ کرایہ دیتے نہیں، قبضہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں، جہاں سے دل کرتا ہے وہیں سے توڑ پھوڑ کرتے ہیں ان کے دل کو راحت ملتی ہے۔ مالک مکان کے ناک میں دم آ گیا ہے۔ اس ملک کے مالک اور وارث وہ اکثریتی عوام ہیں جن کے خون پسینے سے یہاں کی زراعت سانس لیتی ہے اور جن کی ہڈیوں کے گودے کی قیمت پر یہاں کی صنعتیں قوت پاتی ہیں۔ ان غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی آمدنی کے ٹیکس سے سیاستدانوں کے ایوانوں کے قمقمے جگمگاتے ہیں، ان کی سواریوں کے ایندھن اس بیت المال سے حاصل ہوتے ہیں جہاں غریبوں کی پائی پائی خزانہ عامرہ کو قومی خزانہ بنا رہی ہو۔ وہاں غریبوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ غریب خزانہ بھرتے ہیں۔ یہ سیاستدان اور ان کے جانشین بھی اور حاشیہ نشین بھی اپنے اپنے تھیلوں کو جی بھر کر بھرتے ہیں، عوام کو باتوں کی اور لاتوں کی واردات سے موت کا پھندہ دیتے ہیں۔ روز عدالت میں عوام کی کسمپرسی کی کہانی سنائی دیتی ہے۔ کوئی ایک کہانی، ظلم کی ہزارہا کہانیاں ہیں، الف لیلیٰ کی کہانیاں ماند پڑ جائیں اگر کوئی غیرت مند صاحب درد ادیب پاکستانی سیاستدانوں اور ان کے ٹکر گدھ جانشین حمایتیوں کی لالچ بھری کہانیاں مرتب کردے تو شاید آئندہ نسلوں کو بصیرت نصیب ہو۔ ایک سیاسی پارٹی اور دوسری سیاسی پارٹی لندن میں جا کر حلیف بن گئی تھیں۔ دونوں پارٹیوں والے لندن کے جاگیردار ہیں اور ایسے جاگیردار کہ خود لندن کے امرا بھی رشک کریں۔ بڑے دھڑلے سے ایک میثاق کے بندھن میں جڑ گئے۔ اس کے بعد عمل درآمد شروع ہوا۔ گفتگو میں کبھی کبھی ڈرامائی مکالمے اور اداکاری کی جنگیں بھی زور شور سے جاری رہیں لیکن عمل میں پوری دیانت سے چوری ڈاکے کا اہتمام رہا تو مجھے مت چھیڑ اور میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا، کا اصول برقرار رکھا۔ اگر کسی نے کچھ شور مچایا تو حلیف غائبانہ اور حاضرانہ خدمات لے کر حاضر ہوگیا۔ حلیفوں کا حلف اس بات پر ہے کہ وہ کسی تیسرے کو شریک بزم نہیں ہونے دیں گے لیکن بزم کی اکھاڑ بچھاڑ کا ایک خاموش سلسلہ بھی ہے اور وہ ازل سے ہے اور اس کے نتیجہ تو بہرحال برآمد ہوا کرتا ہے اور وہ اپنے وقت پر ہو جائے گا۔ لیکن ایک انداز ظاہری اسباب کا بھی ہمیشہ ہی جاری رہتا ہے۔ ظاہری اسباب میں ایک قانون عمرانیات ہمیشہ ہی موثر نظر آتا ہے وہ یہ کہ کسی بھی کمزوری کو ہڑپ کرنا اس وقت بہت آسان ہوا کرتا ہے۔ جب وہ کمزور اپنا دل چھوڑ جائے۔ کہتے ہیں کہ سقوط بغداد کے بعد جو کسمپرسی اور بدحالی کا دور آیا وہ انسانی تاریخ کے رخسار پر طمانچہ ہے۔ کھوپڑیوں کے ڈھیر چنے گئے اور خون آشام ماحول میں تہذیبوں نے موت کے دروازے پر دم توڑا۔ کتب خانے نذر آتش ہوئے اور مذہبی مراکزز کو اصطبلوں میں تبدیل کیا گیا۔ خوف کا طوفان تھا اور بے کسی کے آسیب نے افراد کو بے ضمیر کر دیا تھا۔ ایک گائوں سے ہلاکو کا سپاہی گزرا تو ایک سادہ دہقانی اس کے سامنے آیا۔ فاتحین کے مزاج میں تکبر مستقل گھر بنا لیتا ہے اور ظلم کی سوچ اس کی راحت سامانی شمار کی جاتی ہے۔ اقدار مفتوحین سے اسے چڑ ہوتی ہے اور مغلوبین کی تکلیف سے اسے اپنی بڑائی کا احساس میسر آتا ہے۔ اس ہلاکو کے سپاہی نے نفرت و نخوت سے اس سادہ دہقانی مسلمان کو دیکھا اور حکم دیا کہ زمین پر فوراً لیٹ جائو۔ وہ مفتوح قوم کا بے کس شہری دم سادھ کر لیٹ گیا۔ بائولا سپاہی بڑ بڑایا کہ اس کی تہہ تیغ کرنے کے لیے تو تلوار کی ضرورت ہے گرجا کہ تم ابھی لیٹے رہو۔ میں چھائونی سے جا کر تلوار لے آئوں۔ وہ بے چارا خوف کے مارے لیٹا رہا اور فاتح لشکر کے سپاہی نے اس کو واپس آ کر ذبح کردیا۔ کمزور، دل چھوڑ اور بے ہمت عوام کی کہانی کچھ اس سے مختلف نہیں ہے۔ گندے کردار اور گندے ذہن کا عمل اول آخر گندا ہی ہوتا ہے۔ کراچی، لاہور، نواب شاہ، سکھر ، لاڑکانہ روایتی نہیں نو روایتی یعنی نو دولتیوں کی پرانی آماجگائیں ہیں۔ کسی کو اقتدار خوشامد سے ملا ہے اور کسی کو اقتدار مکاری سے ملا ہے۔ استحقاق سیاسی کسی کا بھی ثابت نہیں ہے۔ ایک گروہ ہے کسی نے اپنے مارے ہیں اور کسی نے پرایوں کو موت کی وادی میں اترا ہے۔ ہاتھ سب کے صاف، تمام کاریگروں نے دستانے پہن رکھے تھے۔ قاتل با کرامت ہیں، کہ کرامتیوں کی اولاد بھی سجدۂ تسلیم بجالاتی ہے۔ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کو داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو دھڑلے سے دعویدار ہیں کہ ہم اور بس ہم۔ دل سب کے لالچ مارے۔ لندن میں تو بات ہوئی تھی کہ کبھی گیند تیری اور بلا میرا اور کبھی بلا تیرا اور گیند میری۔ یہاں تک تو میثاق تحریر تھا لیکن جب سے نوخیز موروثی بچوں نے شباب کی انگڑائی لی ہے تو آنکھوں میں ایسی بہاراں اتری ہے کہ سب کا سب باپ کا مال نظر آتا ہے۔ دونوں طرف سے جنون شباب کی مستی نچلی نہیں بیٹھتی۔ اس کو برا کہہ، اس کو کوس، اسے آنکھیں دکھا، بس دھول دھپا بازی ہے۔ کسی بھی دھڑے باز کی حکومت میں نہ کسی شہری کو شفاف اور پاک پانی میسر ہے اور نہ ہی پاکیزہ فضا میسر ہے۔ گلی کوچوں میں غلاظت اور تعفن شہریوں کو منہ چڑاتا ہے اور بیماریوں کا سیلاب تھمنے میں نہیں آتا۔ عوام بے چارے رو رہے ہیں، خواص گم ہیں اور حکمران شادمان میں کہ ہم نے عوام کو ہرا دیا ہے اور وہ بے کس ہیں۔ چوری اور سینہ زوری سے ملک کا پیسہ باہر لے گئے۔ ان پیسوں پر نحوست برسے گی کہ غریبوں کے خون سے ان سینہ زوروں کے بینک آباد ہوتے ہیں۔ دونوں گھروں کے بینک بیرون ملک میں پوری طرح سے آباد ہیں۔ یہودی اور بنیے کی پڑھائی ہوئی پٹی پر چلتے ہیں۔ ذیلی حلیفوں کو بھی خوش رکھتے ہیں اور یہ بے چارے حلیف لومڑی اور گلہڑی کی کہانی ہیں۔ روایتی حلیف اور غیر روایتی حریف ایک دوسرے کے صوبے میں جا جا کر عوام کو یہ رپٹ لکھواتے ہیں کہ دیکھو تمہارے شہر میں غلاظت اور تعفن کے ذمہ دار تمہار حکمران ہیں لیکن یہ ڈھنڈورچی اپنی نیت اور کردار کی غلاظت و تعفن پر کبھی توجہ نہیں دیتے۔ انہیں ضد ہے کہ ہماری بات مانو اور ہمیں اقتدار کی گھومنے والی اور جھولنے والی کرسی پر بٹھائے رکھو۔ پھر کسی نہ کسی طریقے سے ذیلی دھڑوں کی آبیاری کرو۔ اب مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے مختلف دھڑوں میں جمع ہورہے ہیں۔ ان کے قلوب و اذہان میں اطاعت گزاری کا نمونہ افراط سے پایا جاتا ہے اور یہ اطاعت گزاری بنام خدا و رسول ﷺ نہیں ہے بلکہ یہ قلب و نظر کی باجگزاری کا قصہ ہے۔ کلفٹن اور جاتی امراء کے دستر خوان پر اس اطاعت گزاری کی تقویت کا حلف اٹھایا جاتا ہے۔ مذہبی گروہوں کے پرانے تمن دار ان عقابی نظروں کے مالک لیڈروں نے اسمبلی میں ختم نبوت کے مسئلے پر آنکھیں موند لی تھیں۔ عقاب زادوں کی پرورش پرانے کرگسوں میں ہوئی ہے۔ ہر حکومت کے کرسی کے پائے سے لپٹے ورد کرسی کیا کرتے ہیں اور اپنے آقائے نعمت کی ہر بات پر صادقانہ بلکہ بسااوقات مجنونانہ سر ہلاتے ہیں۔ ہر دور کا مدارالمہام اپنی مرضی کرتا ہے۔ نوازتا ہے، تھپکی دیتا ہے، سرکاری وسائل کو اپنی ذات کے محور پر گھماتا ہے۔ پارلیمنٹ کو بھی اپنی گھریلو مجلس شوریٰ بنا کر رکھا گیا۔ اب احتسابی ادارے اگر اقدام کرتے ہیں تو ہر ان کو کوستے ہیں، نااہل وزیراعظم کبھی اپنے آپ کو شیخ مجیب بنانا چاہتا ہے اور عجب اقتدار میں تھے تو ثانی قائداعظم کا لقب ان کے حواری ان کو دیتے تھے۔ اب اقتدار سے باہر ہیں تو انہیں غدار وطن اور غدار ملت اور مجیب الرحمن کا کردار یاد آتا ہے۔ فوج کو کوسنا اور اقتدار کو لپکنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ 30 سال سے اس ملک کو چراگاہ بنایا ہوا ہے۔ دہشت گردی کے خفیہ فروغ میں ان کا پورا حصہ ہے۔ فوج کو بے بس کر رکھا تھا، دہشت گردوں کو بگڑے بچے بنا کر بس فہمائش تک محدود کر دیا تھا۔ کشمیر میں روزانہ عزتیں برباد ہوتی ہیں، جوانیاں موت سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ اسلام کی بے حرمتی ہوتی ہے، بچے یتیم ہوجاتے ہیں، جوان سہاگ لٹتے ہیں اور بین الاقوامی دہشت گرد مودی جو موذی ہے۔ اس انسانیت سوز کارروائی کی سرپرستی کرتا ہے۔ مجال ہے کہ اقتدار کے نشئی کا نشہ ٹوٹ جائے مگر مودی کی مذمت میں ایک لفظ بھی نکلے۔ مودی کی مذمت سے کسی ابلیسی طبیب نے منع کردیاہے کہ مودی کی مذمت کرنے سے زبان پر چھالے پڑ جائیں گے۔ نااہل وزیراعظم کو غصہ ہے کہ پارلیمنٹ کسی نہ کسی طرح عدالتوں کے دروازوں کو ویران کردے اور انہیں یہ بھی غصہ ہے کہ ان کی جانچ پڑتال کیوں ہورہی ہے۔ ان کے ہاں مذمت اور مذمت کار بہت غیر معیاری ہیں۔ یہ خلائی مخلوق کون ہے؟ کیا ان کے رابطے اس مخلوق سے کبھی ہوئے ہیں اور یہ خلائی مخلوق صرف موجودہ وزیراعظم اور ان کے مہا گرو وزیراعظم ہی کو نظر آتی ہے یا کسی اور محب وطن کو بھی مشاہدہ کرواسکتے ہیں۔ اب وہ ادارے جو عوام کے حقوق اور آزادی وطن کا تحفظ کر رہے ہیں، ان کی تنقیدی مہم کی زد میں ہیں۔ الیکشن بہت نزدیک ہیں لیکن یہ از خود دانشمند سیاستدان اپنے پرانے لچھن پر ہی سیاسی میدان گرم کئے ہوئے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے اگرچہ پوری طرح آشنا ہیں کہ بین الاقوامی سازش کاروں نے ہمارے لیے مشکلات کی کیسی بساط بچھائی ہے مگر ان کا ذوق خودپرستی ان پر اقتداری نشہ طاری کئے ہوئے ہے۔ آسمان سے اترتے فیصلے نافذ ہونے کے قریب ہیں۔ وطن دشمن منافقین پر آسمان سے تیر برسیں گے اور اہل نظر ابرہان وقت کی ذلت کا سامان دیکھ رہے ہیں۔ ابابیلیں اپنی معصوم چونچوں میں سنگریزے بٹھا رہی ہیں۔ ابھی چند دنوں میں وہ حکم الٰہی سے اڑان بھریں گی اور اس مکدر فضا کو شفاف کردیں گی۔ مضبوط کرسی کا دعویٰ کرنے والے بے بسی کے تختہ پر انجام کو پہنچے تھے اور کرسی تو اسی وحدہ لا شریک کی مضبوط ہے جس پر دلوں کے احوال بالکل بھی مخفی نہیں اور بئس مثوی الظالمین برا ہے ٹھکانہ ظالمین کا