وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے‘ دعوے دھول ارادے خاک‘ مستقبل تاریک ‘ دائرے کا سفر پورا کر کے اپنی تھان پر آ گیا‘ نہ میاں کے نعرے’’وج‘‘ سکے نہ چوتھی باری پھر ہماری ہو سکی‘سزا یافتہ سزا اور نااہلی ختم کرنے والی غیر آئینی قانون سازی اپنی موت آپ مر گئی‘ مقبولیت پابند سلاسل ہو کر بھی قبولیت کو دھول چٹاتی رہی‘ ایک وہ ہے جو حبس کی راتوں میں ننگے فرش پر چین کی نیند سوتا رہا‘ ایک یہ ہیں کہ پھولوں کی سیج کانٹوں کا بستر ہو گی‘ دن کو آرام آئے نہ راتوں کو آنکھ لگے۔ یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو۔ تیری صبح کہہ رہی ہے تیری رات کا فسانہ۔ ایک اکیلا خان جسے سیاست بھی نہیں آتی‘ دنیا بھر سے سمیٹ کے لائے سیاسی دانشور ‘ عبقری فلاسفر‘ صف در صف ہوا کیا ؟ تیز ہوا آئی‘ طوفان اٹھا نہ آندھی چلی‘ پھر بھی صفیں برہم ہوئیں‘ خیموں کی طنابیںاکھڑ گئیں‘سیاست کے ’’چانکیہ‘‘ سیاست بھول گئے میکاولی کا فلسفہ دھرا رہ گیا۔خالی ذہن‘ پراگندہ لشکر‘ شیر پنجرے میں دھاڑتا ہے تو محفوظ پناہ گاہوں میں گہری نیند میں سوئے حریف وحشیانہ چیخ اٹھتے ہیں: پندار کے خوگر کو ناکام بھی دیکھو گے آغاز سے واقف ہو انجام بھی دیکھو گے رنگینی دنیا سے مایوس ہو جانا دکھتا ہوا دل لے کر تنہائی میں کھو جانا راتوں کی خاموشی میں چھپ کر کہیں رو لینا مجبور جوانی کے ملبوس کو دھو لینا حکومت جانے پر شہباز شریف کی پوچھتے کیا ہو‘ مولانا کی حالت دیکھو‘ جو اقتدار جانے کے بعد جل سے باہر مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں‘ ایک زرداری سب پر بھاری اپنے ہی بوجھ تلے کراہ رہے ہیں‘ مگر سب سے دلچسپ حالت’’بھاڑے کے تجربہ کار اور کرائے کے دانشوروں‘‘ کی ہے‘اب ان کی بسر انتخابات کے التوا کے لئے دیکھے سہانے سپنوں پر ہے‘انتخاب ہونگے‘ انتخابات آ گئے یہ ایسی چھیڑ بن چکے ہیں کہ تحریک انصاف کے بچے بالے اگر کورس میں دہرانے لگیں تو یہ بے چارے دانشوری‘ تجزیہ کاری بھول کر مارے وحشت جنگل‘ بیابانوں کی راہ لیں گے۔ایک ٹی وی پروگرام میں میزبان نے پوچھا‘ کپتان کو بھلے اقتدار سے الگ کر دیا گیا ہے لیکن اس کی مقبولیت آسمانوں کو جا لگی انتخابات ہو گئے تو سازش کرنے والوں کا کیا بنے گا؟ تجزیہ کار نے وسیع تجربے اور گہرے مشاہدے کی روشنی میں جواب دیا‘ شہباز شریف کی کارکردگی پاکستان میں ہی نہیں دوست ملکوں میں بھی ضرب المثل بن چکی ہے‘ مقبولیت کو کارکردگی کا مقابلہ کرنے دیں پھر دیکھیں مقبولیت کس طرح ’’چوکڑی بھول جاتی‘‘ مقبولیت اپنی جگہ پہاڑ بن کے کھڑی ہے اور کارکردگی منہ چھپانے کو اندھیری کوٹھڑی کی تلاش میں سرکردہ و رسوا‘ سہولت کار اپنے شہکار پر شرمندہ شرمندہ چھت کو گھورے چلے جاتے ہیں۔شاہ جی کہتے ہیں جو ہو چکا ہے وہ سب نے دیکھا‘ سب پر گزرا‘ اب آگے کیا ہے؟ جو سیاست کا رخ تعین کرتے ہیں وہ کیا کریں گے؟ عوام کا ردعمل کیا ہو گا؟ اور نتیجہ؟اب کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا؟ ترکش کے سارے تیر بے ہدف ضائع ہو گئے، ترکش خالی چلائیں کیا؟سب حربے‘ ساری چالیں الٹی پڑ گئیں۔ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ’’سیدھی راہ(صراط مستقیم)بس ایک ہی ہے‘ یوں تو چلنے کو بہت راہیں وہ ساری گمراہی میں لے جاتی ہیں۔ ٹیڑھی‘ ترچھی سب راہیں پامال کی جا چکی ہیں‘ گزشتہ چودہ مہینوں میں موسیٰ کی قوم کی طرح جو چالیس برس صحرا میں بھٹکتی رہی ہمارے رہنمائوں نے بھی قوم کو ٹھکا کے اتنا بھگایا اور دوڑایہ ہے کہ اس کی ساری توانائیاں نچڑ گئیں‘ ان کی زبانیں تالو کو آ لگی ہیں‘ آنکھیں پتھرا گئیں پائوں میں چھالے مزید قدم بڑھانے کا یارا نہیں‘ اب بھی سلامتی کی راہ لینی ’’صراط مستقیم‘‘ سامنے ہے وہ ہے‘ بلا روک ٹوک‘ صاف‘ شفاف انتخابات‘ پیا جسے چاہے وہی سہاگن عوام جس کو پسند کریں ووٹ دیں‘ نظام حکومت اس کو سونپ دیا جائے اور سب اپنے اپنے اصل کام پر لوٹ جائیں۔ کہتے ہیں مچھلی پتھر چاٹ واپس آتی ہے‘ ہماری مچھلی بھی پتھر چاٹ چکی‘ مگر اس کی عقل سمندر کی باقی مچھلیوں سے جدا ہے وہ چاٹ کے واپس آنے کی بجائے اسی پتھر سے لپٹی ہے‘ پرچہ داناکند‘ کند ناداں لیک بعداز خرائی بسیار‘ لیکن ہماری مچھلی سب سے الگ سب سے جدا ہے تو ہما ناداں بھی سب نا دانوں سے ناداں ہیں وہ بعداز خرابی بسیار بھی وہ کرنے کو تیار نہیں جو دانا کیا کرتے ہیں۔مختصر بات یہ ہے کہ آسان‘ سیدھا اور سلامتی کا رستہ ایک ہے‘ انتخابات کروا دیے جائیں لیکن خوف ہو یا لالچ وہ سیدھی راہ سے بھٹکا دیتا ہے‘ نہ کرو ہم سے کوئی بات مگر دیکھ تو لو‘ یہ انا اور بہادری نہیں ہے جو بات کرنے سے روکتی ہے بلکہ مارے خوف کے اعتماد کی کمی اور احساس کمتری آنکھ ملانے نہیں دیتی یا پھر احساس جرم کچوکے دیتا ہے۔نئی سیاسی جماعت بن نہیں پائی جو امیدوں پر پورا اتر سکے‘ پرانی آزما کے دیکھ لیں ان کے سوتے خشک ہو چکے جڑیں کِرم خوردہ‘ سوچا تھا حریف کی صفوں میں لالچی‘ غدار‘ بھگوڑے تلاش کر کے اسے اتنا کمزور کر دیں کہ اپنے کمزوروں کے ساتھ اپنی توانائی ملا کر برابر کر لیں گے یہ بھی کر کے دیکھ لیا‘ کچھ بن نہیں پایا۔ہمارے مقبول عوام شاعر انور مسعود کے بقول : ساری کھیڈ ونجا بیٹھے آں/دودھ وچ سرکہ پا بیٹھے آں/سوچی پئے آں ہن کی کریے/ سودا کوئی پجدا ناہیں/ کوئی رستہ دسدا ناہیں/ رستے دے وچ آ بیٹھے آں/ سوچی پئے آں ہن کی کریے سوچتے رہنے کے لئے بھی وقت کم پڑتا جا رہا ہے کب تک سوچو گے ؟ شیخو پورہ کے شاعر امین گیلانی نے کہا تھا: آپ ہی تو نے چھانٹے ہیں‘ کیا جانوں پھول کہ کانٹے ہیں۔ہار نہیں تو باڑ بنا لے کانٹے بھی بے کار نہیں کانٹے چھاٹ لئے ہیں تو ہرے بھرے کھیت کے گرد باڑھ بنا لیں۔دودھ سرکہ پا بیٹھے آں‘ دیکھ لیجیے شاید پنیر بن جائے نہیں بنتا؟ تو بدرو میں پھینک دیجیے کب تک اسی پر سوچا کریں گے‘آخر آپ کی سوچیں کبھی’’سچل‘‘ ہوئی تھیں؟ ہماری اسٹیبلشمنٹ اب بھی بند گلی میں نہیں ہے‘ خوف و وحشت میں یا لالچ کے زیر اثر سمجھائے گئے سارے رستے بند گلی پر ختم ہوئے‘ ایک رستہ سیدھا اور صاف ہے اس پر چلنا ہی ہو گا۔عرض کیا تھا گھڑی آپ کے پاس ہے اور وقت عوام کے ہاتھوں میں اور عوام کپتان کے ساتھ‘ مگر ہمارے دوست نیازی صاحب نے کہا ہے’’وقت اور گھڑی دونوں آپ کے پاس ہیںلیکن اسے مان کے نہ دیجیے باجوہ صاحب سے مشورہ کر لیں کہ واقعی گھڑی کے علاوہ وقت بھی ہاتھوں میں ہے کہ نہیں ہاں عقل کل امریکہ سے بھی پوچھا جا سکتا ہے‘ ملا عمر نے کہا تھا: گھڑی امریکیوں کے پاس اور وقت ہمارے ساتھ‘ اس بات پر امریکی بھی ٹھٹھہ مار کے ہنسے تھے ‘ مان کے نہیں دیا انہیں تسلیم کرنے میں 20برس لگ گئے ’’ہرچہ دانا کند کند ناداں لیک بعداز خرابی بسیار‘ امریکی نادان بہرحال وہی کرنے لگے جو دانا کیا کرتے ہیں بعداز خرابی بسیاری صحیح اسی لئے عرض کیا‘ باجوہ صاحب دستیاب نہ ہوں تو امریکیوں سے مشورہ کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟ آخری رستہ عوام کو لبھانے اور انتخابات سے بچنے کا جو سوچا جا رہا ہے‘ وہ رستہ ابھی باقی ہے لیکن نہیں معلوم اس کے آخری کونے پر کیا ہے؟ یہ نہ ہوکہ موسیٰ نسیا موت توں ‘ موت اگے کھڑی آسان اور سیدھا رستہ قبول نہیں تو اس پر چل کر دیکھ لیجیے آج تک ہر ڈکٹیٹر نے اس کی خوشخبری سنائی ضرور ہے مگر کبھی چل کے نہیں دکھایا‘ صرف قوم کی راہ کھوٹی کی ہے۔ وہ رستہ ہے بے رحم کڑا احتساب‘ فوری انصاف‘ چینی اور سعودی طریقہ کار کے ساتھ لوٹی دولت کی واپسی اور لٹیروں کا خاتمہ لٹیرے ڈاکو کچے کے بلوں یا پکے کے چینی طریقے سے ان کا خاتمہ‘ ہمت ہے تو کر دیکھو تحریک انصاف کے نوجوان بھی اس نظارے میں محو ہو کر تھوڑی مدت مسحور رہیں گے۔دو ہی رستے۔انتخاب یا بے رحم احتساب دیکھ لیجے۔خفیہ ویڈیو کا خزانہ بھی ہے!