وفاقی حکومت صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام میں پیشرفت کے لئے پہلے مرحلے میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی پولیس کی تعیناتی کر رہی ہے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آبادی کے تناسب سے 35فیصد فنڈ جنوبی پنجاب کے لئے مختص کریں گے جبکہ 1350ملازمین کی بھرتیاں کی جائیں گی۔ 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔ الیکشن سے قبل جنوبی پنجاب محاذ کے نام سے ایک الگ سیاسی گروپ تشکیل پایا، بعدازاں اس گروپ نے تحریک انصاف سے اس شرط پر اتحاد کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنائے گی۔ گو اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے پاس اکثریت نہیں لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے وعدے کو ایفا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی بھی جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا اعلان کر چکی ہے جبکہ مسلم لیگ( ن) بھی الگ صوبے کے لئے ماضی میں اعلان کرتی رہی ہے، یہ دونوں پارٹیاں قومی اسمبلی اور سینٹ میں تحریک انصاف کا ساتھ دیں تو یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو سکتا ہے۔ صوبہ پنجاب 9ڈویژن اور 36اضلاع پر مشتمل ہے۔2017ء کی مردم شماری میں اس کی کل آبادی 11کروڑ سے زیادہ ہے۔ دارالحکومت لاہور ہونے کی بنا پر جنوبی پنجاب کے عوام کو ایک لمبا سفر طے کر کے سول سیکرٹریٹ آنا پڑتا ہے کیونکہ تمام سرکاری شعبوں کے صدر دفاتر صوبائی دارالحکومت میں قائم ہیں، اس لئے ڈی جی خان‘ ملتان اور بہاولپور کے شہریوں کو اپنے کاموں کے لئے تخت لاہور سے ہی رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اسی بنا پر ان دور دراز اضلاع کے شہریوں میں تخت لاہور کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے کیونکہ شہریوں کو علاج کرانے‘ انصاف حاصل کرنے‘ بڑی لیبارٹریوں میں ٹیسٹ ‘ ملازمتوں کے تبادلے ‘ پنشن کے معاملات یا پھر نئی نوکریوں کے حصول کے لئے لاہور آنا پڑتا ہے‘ اگر ماضی کی حکومتیں ملتان میں ایک سول سیکرٹریٹ بنا دیتیں تو عوام میں اس قدر اشتعال پیدا نہ ہوتا لیکن محرومیوں کے ستائے عوام نے اپنے حقوق کے حصول کے لئے آواز بلند کی، اب امید قائم ہوئی ہے کہ ان کی محرومیوں کا جلد ازالہ ہو جائے گا۔ جنوبی پنجاب سے 70برس سے سیاسی قیادت منتخب ہو کر اسلام آباد اور لاہور آتی رہی ہے، اس خطے سے صدر پاکستان‘ وزیر اعظم ‘ گورنرز اور وزراء اعلیٰ منتخب ہوئے لیکن الیکشن جیتنے کے بعد ہر کوئی عوام سے کیے وعدوں کو بھول جاتا رہا۔ روزگار ‘ تعلیم‘ صحت اور ملازمتوں کے حصول پر کسی نے توجہ ہی نہ دی۔ جس کے باعث اس خطے کے نوجوان منشیات‘ بے راہ روی اور جرائم کی دلدل میں پھنستے گئے، جو وہاں کے منتخب نمائندوں کی عدم توجہ کا نتیجہ ہے۔موجودہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ وہاں کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس سلسلے میں جنوبی پنجاب کا صدر مقام اس شہر کو بنایا جائے جہاں پر پہلے سے دفاتر قائم ہوں تاکہ اخراجات میں کمی ہو‘ ویسے بھی موجودہ حکومت غیر ضروری اخراجات کے خلاف ہے۔ جنوبی پنجاب کے مجوزہ صوبے کے تین ڈویژن اور 11اضلاع بنتے ہیں۔جبکہ آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ لہذاصوبہ بناتے وقت عوام کی سہولیات کو مدنظر رکھ جائے، اس لئے کوشش یہ کریں کہ ان گیارہ اضلاع کے عوام کو نئے صوبے میں بھی لمبا سفر طے کر کے علاج معالجے اور تبادلے کے لئے نہ آنا پڑے بلکہ جو علاقہ ان اضلاع کے درمیان واقع ہو یا جہاں پر لوگوں کے لئے آسانی ہو، وہاں پر ہی صوبے کا صدر مقام بنایا جائے۔ آبادی کی آسانی کو ملحوظ خاطر رکھیں ۔کتنی آبادی کے لئے بہاولپور صوبہ بہتر رہے گا اور کتنی آبادی کے لئے ملتان آنے جانے میں آسانی ہو گی۔ ہمارے موجودہ سیاستدان اپنی منشا کو قربان کرتے ہوئے عوام کی سہولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبے کا صدر مقام طے کریں۔ صحت کی سہولیات ‘ جدید تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کر کے عوام کی محرومیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ اس وقت جنوبی پنجاب کے منتخب نمائندے سینٹ‘ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں موجود ہیںانھیں اپنی اپنی منشا کے مطابق صوبے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ علاقائی جماعتوں اس خطے کی بااثر مذہبی‘ سماجی اور سیاسی شخصیات کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے ، اس وقت اتفاق رائے قائم کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر اتفاق رائے قائم کئے بغیر صوبہ بنایا گیا تو پھر مسائل پیدا ہونگے۔ جنوبی پنجاب محاذ کے رہنمائوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر اتفاق رائے قائم کریں ۔ سیاسی‘ سماجی‘ مذہبی اور اہم علاقائی شخصیات پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو صوبے بھر میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے رابطہ کر کے کسی ایک مقام پر اتفاق رائے پیدا کرے۔ اس صوبے کے قیام سے یقینی طور پر وفاق مستحکم ہو گا اور عوام کی محرومیوں کا بھی ازالہ ہو سکے گا۔ سردست سیکرٹریٹ کے قیام سے عوام کو سفری طوالت سے نجات مل جائے گی۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی پولیس کی تعیناتی سے لاہور میں موجود سرکاری دفاتر کا بوجھ بھی کم ہو گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی اشرافیہ عوامی جذبات سے کھیلنے کی کوشش نہ کرے بلکہ صحیح معنوں میں عوام کو ریلیف فراہم کرے۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں عوام میں شعور آ چکا ہے لہٰذا ماضی کی طرح اب وہ سیاستدانوں کے ہاتھوں مزید استحصال برداشت نہیں کر سکتے۔2018ء کے الیکشن میں بھی سیاستدانوں کو ووٹوں کے حصول میں نوجوانوں کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آنے والے انتخابات میں اس سے بھی سخت ردعمل سامنے آسکتا ہے لہٰذا وقت سے پہلے پہلے عوام سے کئے وعدوں کو ایفا کیا جائے۔