افغان صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے حکمنامے پر دستخط کر دیے ہیں۔ دوحا امن معاہدے میں 5ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی شامل تھی لیکن افغان صدر قیدیوں کی رہائی سے انکار کر کے امن معاہدے کے بارے میںمشکوک شبہات پیدا کر رہے تھے ۔امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی کاوشوں سے معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی بارے لائحہ تشکیل دیا گیا ہے۔ منگل کے روز حقانی نیٹ ورک سے وابستہ 1500قیدیوں کی بگرام جیل سے رہائی ہوئی۔ رہائی کے وقت طالبان قیدی کمشن کے چھ ارکان بھی موجود تھے۔ اس موقع پر کابل انتظامیہ نے بھاری رشوت وصول کر کے 56ایسے قیدیوں کو بھی رہا کرانے کی کوشش کی جو سنگین جرائم میں ملوث تھے لیکن طالبان نے ایسے جرائم پیشہ افراد کی رہائی سے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ ہماری لسٹ میں ان قیدیوں کا نام ہے نہ ہی ہمارا ان سے کوئی واسطہ ہے۔ جبکہ دوسری جانب امریکہ نے 8600فوجیوں کو نکالنے کا اعلان کیا ہے۔آئندہ دو سے تین روز میں امریکہ 3300فوجیوں کا بگرام اور قندھار سے انخلا کر سکتا ہے۔ افغان انٹرا مذاکرات کے لئے فضا کافی خوشگوار بنتی نظر آ رہی ہے لیکن طالبان رہنمائوں کو اس موقع پر داخلی اور خارجی دشمنوں سے چوکنا رہنا ہو گا۔ کیونکہ وہ اس موقع پر شرارت کر کے افغانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کرینگے۔ اگرطالبان نے افغان انٹرا مذاکرات میں بھی امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی طرح دانشمندی دکھائی تو مستقبل ان کا ہے لہٰذا اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں اور امیر کی اطاعت کو لازم پکڑیں یہی کامیابی کی کنجی ہے۔