افغانستان میں طالبان کی حکومت کے آخری دو سال ایسے تھے کہ دنیا بھر کی طاقتوں کو یقین ہوچکا تھا کہ اگر اس اسلامی حکومت کو مزید مہلت دی گئی تو اس کے اثرات پوری مسلم دنیا میں پھیلنا شروع ہو جائیں گے۔ چودہ سالہ سوویت افغان جنگ سے تباہ حال افغانستان کو جس خوبصورتی، مہارت اور حسنِ انتظام سے طالبان نے ایک پُرامن ملک میں تبدیل کر دیا تھا اسکی مثال صرف سیاسیات (Political Science) کی کتابوں میںہی ملتی ہے کہ ایسے شہرجہاں ریاستی ادارے نظر نہ آئیں، لیکن لوگ ازخود قانون پر عملدرآمد کرتے ہوں۔ پاکستان کے شہر چمن کے بارڈر پر ’’رنگین منڈی‘‘ کا وسیع و عریض بازار تھا، جس میں اربوں روپے کا کاروبار ہوتا تھا، اس پورے بازار کی حفاظت پر صرف سات طالبان معمور تھے اور لوگ اپنی دکانیں کھلی چھوڑ کر نمازیںمسجد میں ادا کرنے جاتے تھے۔ہزاروں پاکستانی روزانہ اس منڈی میںجاتے اور متاثر ہو کر لوٹتے ۔خصوصاً چمن کے شہری جنہوں نے گذشتہ دس سال نجیب اللہ کے کمانڈرعصمت اللہ مسلم اور حکمت یار کے کمانڈر دارو خان کو یہاں دیکھا تھا جو دن دیہاڑے چمن سے لوگ اغواء کرکے لے جاتے تھے اور تاوان لے کر چھوڑتے تھے۔ ایسا پُرامن ماحول، صرف ایک سپن بولدک میں ہی نہیں تھابلکہ ترکمانستان، ایران اور افغان بارڈر والے صوبے ہرات سے لے کر ازبکستان بارڈر والے صوبوں شبرگاں اور بلخ، اور پاکستانی سرحد پر نیمروز سے لے کر کنٹر تک تمام علاقے ایک ایسے پرامن ماحول کا منظر پیش کرتے تھے کہ جس میں زیورات سے لدی پھندی عورت اگر اکیلی سفر کر رہی ہو تو اسے کسی قسم کا کوئی خوف نہ ہو۔ طالبان کے حکومتی اختیار (Writ of Government)کا عالم یہ تھا کہ نیمروز، ہیلمند، قندھار، زابل، پکتیا اور پکتیکا کے وہ علاقے جو پاکستان کے بارڈ ر پر واقع تھے، ان میں گذشتہ کئی سو سال سے پوست کاشت ہو تی تھی۔ اس کی فصل سے افیون نکالی جاتی تھی اور اعلیٰ کوالٹی کی ہیروئن بنائی جاتی۔دنیا کو سپلائی ہونے والی ستانوے فیصد افیون، مارفین اور ہیروئن یہیںبنتی تھی۔ افغانستان سے یہ ہیروئن پاکستان کے علاقوں برابچہ ، پٹ گنگو اور نوکنڈی کے پہاڑی ریگستانوں میں بنائے گئے کچے کے راستوں سے ایران یا بحیرہ عرب پہنچائی جاتی ۔ وقفے وقفے سے کئی سو گاڑیوں پر مشتمل عالمی قافلے روانہ ہوتے تھے۔ تفتان سے دالبندین آتے ہوئے میں نے دھول اڑاتے ہوئے ایسے قافلوں کو بارہا دیکھا ہے۔ عالمی ڈرگ مافیا کے ان قافلوں کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں ایسی مسلح گاڑیاںہوتی تھیں جن پر اینٹی ایئرکرافٹ بندوقیں تک نصب ہوتیں۔ افغانستان میں پیدا ہونے والی اس ہیروئن میں 26فیصد کا خریداریورپ تھا، 13فیصد کا امریکہ، 22فیصد کا روس اور 12فیصد کا چین تھا۔یہ تمام کاروبار اسی ارب ڈالر سے بھی زیادہ کا تھا۔ لیکن ملا محمد عمر ؒ کے صرف ایک فرمان پر عمل درآمد کا عالم یہ تھا کہ وہ افغانستان جو دنیا کی 97فیصد پوست کاشت کرتا تھاوہاں اسکی کاشت مکمل طور پر رک گئی۔ اس فرمان پر عملدرآمد نے اس ’’مہذب‘‘ دنیا کو حیرت میں ڈال دیا، جو تمام طاقت اور قوت کے باوجود منشیات مافیا کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی امریکہ افغانستان میں داخل ہوا اس سارے بارڈر پر ہیروئن کی فیکٹریوں کی ’’بہار‘‘ واپس لوٹ آئی اور عالمی معیشت میں حصہ دار بن گئی۔ یہی وہ عالمی ڈرگ مافیا ہے جو افغانستان میں طالبان کے دوبارہ واپس آنے پر انتہائی خوفزدہ ہے۔ طالبان کا وہ قافلہ جو 24جون 1994ء کو فساد زدہ افغانستان میں امن قائم کرنے کا پرچم لے کر چلا تھا، پوری دنیا اس کی پیش قدمیوں پر گواہ ہے کہ سپن بولدک کی گیارہ نومبر 1994ء کی پہلی لڑائی کے بعد قندھارایئر پورٹ صرف دس منٹ کے قلیل عرصے میں حاصل کر لیا گیا تھا اور 13نومبر 1994ء کو گورنر قندھار ملا نقیب نے تمام سپاہیوں سمیت یہ شہر بغیر ایک قطرۂ خون بہائے طالبان کے نامزد کردہ گورنر مولوی عبد السلام کے حوالے کر دیا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پہلی دفعہ پوری دنیا میں طالبان کا نام گونجا تھا۔ میں کوئٹہ میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں شریک تھا ،جس میں پاکستان کی ’’خفیہ‘‘ اور ’’ظاہر‘‘ دونوں ایجنسیوں کے نمائندے بھی تھے اور سب ایک دوسرے سے سوال کرتے پھرتے تھے کہ یہ ’’طالبان عجوبہ ‘‘ (phenomenon)کیا ہے۔ میں نے ملا محمد عمرؒ کا تھوڑا سا تعارف کروایا تو کوئی بھی اس پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ سب اسے ایک افسانہ قرار دیتے تھے۔ قندھار اور اسکے گرد و نواح میں ملا محمد عمرؒ نے ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست قائم کرکے دکھائی تواس کی شہرت نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے سرحدی اضلاع میں بھی خوشبو کی طرح پھیلنے لگی۔ہر وہ شخص جو پاکستانی پولیس، کسٹمز، پٹواری اور دیگر سرکاری محکموں کے دست درازوں سے تنگ آتا تو پکار اٹھتا، ’’اللہ کرے یہاں طالبان آجائیں‘‘۔عالم یہ ہوگیا تھا کہ لوگ اپنے مقدمات کا فیصلہ کروانے طالبان کے پاس جانے لگے تھے۔ جان محمد دشتی کوئٹہ میں ڈپٹی کمشنر تھا ،ایک دن میں اس کے دفتر میں گیا تو وہاں بیٹھے کچھ لوگ ایک درخواست کر رہے تھے کہ چار لوگوں نے ہمارے اتنے کروڑ افغانی اور ایک موٹرسائیکل دینا تھی، ہم نے چاروں کو پکڑ کو قانون کے حوالے کیا، دو کو پولیس والوں نے پیسے لے کر چھوڑ دیا اور دو کی سیشن جج نے ضمانت کردی۔ ان میں سے دو افراد بھاگ کر قندھار چلے گئے۔ ہم مقدمہ لے کر وہاں گئے ۔ فیصلہ ہمارے حق میں ہوا، انہوں نے آدھی رقم اور موٹرسائیکل واپس کردی اور کہا آدھی رقم باقی دو افراد کے پاس ہے۔ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سے ہماری یہ درخواست ہے کہ باقی دو افراد کو پکڑ کر ہمارے حوالے کرے تاکہ ہم انہیں قندھارلے جاکر طالبان سے اپنا فیصلہ کروائیں۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیںاس پورے خطے کی بدلتی صورت حال کا عکس تھا،کیونکہ روزانہ ہر شہر میں ایسے واقعات ہو رہے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب فروری 1995ء میں طالبان مجاہد ہیلمند کے مرکزی شہر لشکرگاہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ بھر ان کا بھرپور استقبال ہوا۔صرف دریائے رود کے کچکی ڈیم پر کمانڈر غفار اور کمانڈر نسیم سے انکی لڑائی ہوئی۔ وہ دونوں کمانڈر بھی عوامی مقبولیت کے ڈر سے بھیس بدل کرسپاہیوں کو طالبان کی طرح کالی پگڑیاں پہنا کر لائے تھے۔لیکن ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئے۔ اس فتح کے بعد نیمروز، فراہ، ہرات اور باغدیس صوبوں پر اسماعیل تورن خان کا اقتدار تھا۔ اس علاقے کو معمولی جنگوںاور مزاحمتوں کے بعد 3نومبر 1995ء تک فتح کر لیا گیا۔ زابل، ارژگان اور وردگ سے ہوتے ہوئے 27ستمبر 1996ء کو طالبان معمولی سی مزاحمت کے بعد کابل میں داخل ہوگئے۔ یہی وہ دن تھا جب پوری دنیا آن واحد میںطالبان حکومت کے خلاف متحد ہوگئی۔ اسلامو فوبیا تو بہت بعد کی بات ہے ،سب سے پہلے ’’طالبان فوبیا‘‘ ہی تھا جس سے مغرب اور مسلمان حکمران دونوںبیک وقت خوفزدہ ہوئے تھے۔ پڑوسی ممالک، بھارت، ایران، تاجکستان اور ازبکستان میں تو ایسے تھا جیسے ایمرجنسی نافذ ہو گئی ہو۔ افغانستان میں صرف پانچ فیصد علاقہ ایسا تھا جس پر طالبان کا کنٹرول نہیں تھا (جاری)