یہ میری زندگی کا غالباً تیسرا کالم ہے جو میں اس حال میں لکھ رہا ہوں کہ آنسو میری آنکھوں سے رواں ہیں۔کلیجہ غم سے پھٹ رہا ہے‘ دل فگار ہے اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ان پھول سے بچوں کی بے بسی کا اندازہ لگائیے کہ جو خوشی خوشی اچھے اچھے کپڑے پہن کر اپنے چچا کی شادی میں شرکت کے لئے جا رہے تھے کہ آناً فاناً ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بے بس ماں باپ اور بہن کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔19جنوری کو رات کی تاریکی میں نہیں دن دہاڑے ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب لاہور سے آنے والی چھوٹی سی کارکو ٹکر ماری گئی ‘پھر اس پر تین اطراف سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔پھر کسی نے کہا کہ بچوں کو تو نکال لو تو دس سالہ عمیر‘ سات سالہ منیبہ اور چار سالہ ہادیہ کو نکالا گیا۔ اس دوران گولیوں سے چھلنی نیم بے ہوش خلیل دہائی دیتا رہا کہ ہم غیر مسلح ہیں جو لینا ہے لے لو ہمیں نہ مارو مگر کائونٹر ٹیررازم کے وحشی جوانوں نے مرے ہوئے والدین پر بچوں کی موجودگی میں مزید گولیوں کی بوچھاڑ کر دی تاکہ وہ مرے کو مارے شاہ مدار کا ٹائٹل اپنے نام کروا سکیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دن دہاڑے اتنے بڑے بلنڈر کا ارتکاب کرنے کے بعد کسی سطح پر کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ والوں نے اعتراف جرم نہ کیا بلکہ اسے اپنا کارنامہ قرار دیتے رہے۔ ان کی طرف سے بیان جاری کیا گیا کہ ساہیوال شوٹنگ میں مارے جانے والے دہشت گرد تھے جن کا تعلق دہشت گرد تنظیم داعش سے تھا۔ پھر کہا گیا کہ یہ آپریشن انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کیا گیا۔ جب میڈیا اور سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہو گیا اور چونگی امر سدھو کے رہائشی خلیل اور خانوادے کے بارے میں ہزاروں لوگوں نے بتایا کہ یہ علاقے کے انتہائی شریف لوگ ہیں جو پرچون کے کاروبار سے رزق حلال کماتے ہیں تو پھر پہلے بیان کو بدلا گیا۔ سفاکی کا ایسا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے تو ہماری محکماتی و اخلاقی حالت کی قلعی کھل جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سردست معصوم بچے کی بے ساختہ گواہی کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں‘ ہزاروں پڑوسیوں اور اہل علاقہ کی شہادت کو بھی بھول جاتے ہیں‘ ڈی سی ساہیوال کے بیان کو کہ گاڑی سے کوئی مزاحمت نہ کی گئی تھی کو بھی قابل غور نہیں گردانتے مگر اس نئی ویڈیو کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں جس میں صاف نظر آ رہا ہے اور لوگ تبصرے کر رہے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو بیچارے کار کے مسافروں پر دھڑا دھڑ گولیاں برسا رہے ہیں۔ بالفرض گاڑی میں ایک یا کئی دہشت گرد تھے بھی تو کیا دہشت گردوں کو پکڑنے کا یہ طریقہ ہے کہ انہیں گھیر کر بچوں کا لحاظ کیا جائے نہ خواتین کا احترام نہ کیا جائے اور ان کے غیر مسلح ہونے کے باوجود ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جائے۔ یہ ہے اس ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی جس پر عوام کے ٹیکسوں سے اربوں روپے کا بجٹ خرچ ہو رہا ہے۔ عذر گناہ بدتراز گناہ گزشتہ روز وزراء نے ایک پریس کانفرنس کی۔ خود بیچارے وزیر قانون راجہ بشارت کنفیوژڈ تھے۔ وہ جس لب و لہجے اور باڈی لینگویج کے ساتھ پنجاب حکومت کی طرف سے لکھا ہوا بیان پڑھ رہے تھے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اس پر خود انہیں یقین نہیں۔ راجہ صاحب نے کہا کہ گاڑی روکنے پر فائرنگ ہو گئی۔ جب گاڑی سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی تو پھر پولیس والوں نے یکطرفہ فائرنگ کیوں کی؟ پنجاب حکومت کے بیان میں یہ اعتراف کیا گیا کہ خلیل اور اس کی فیملی دہشت گرد نہ تھے۔ اگر وہ دہشت گرد نہ تھے تو پھر ایک غیر مسلح’’دہشت گرد‘‘ کو پکڑنے کیلئے کیا وہاں موجود باقی بے گناہ بڑوں چھوٹوں کو گولیوں سے بھون ڈالنا کون سی پولیس یا فورس کا پروفیشنل ازم ہے۔ وزیر قانون نے ایک اور بڑی مضحکہ خیز بات کہی کہ گاڑی کے شیشے کالے تھے۔ ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ شیشے کالے نہ تھے اندر بیٹھے لوگ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ ساتھ ہی آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آپریشن خفیہ اطلاعات پر مبنی تھا اور گاڑی ٹریک کی جا رہی تھی تو پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ آپریشن کرنے والوں کو معلوم نہ تھاکہ گاڑی میں کون کون ہے۔ ایک آفٹر تھاٹ یہ تراشا گیا ہے کہ گاڑی میں دو خودکش جیکٹ ‘8دستی بم اور دو پستول تھے۔ بالفرض گاڑی میں اتنا گولہ بارود تھا تو پھر ان پر اندھا دھند فائرنگ کر کے بہت بڑی تباہی کا خطرہ کیوں مول لیا گیا۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور صدر عارف علوی کہتے ہیں کہ وہ ساہیوال واقعے سے صدمے میں ہیں۔ بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ 2010ء میں خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف نے سی آئی ڈی کا نام کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ رکھا اور انہیں دہشت گردی ‘ فرقہ واردیت‘ عسکریت پسندی اور دینی مدارس پر نظر رکھنے کا کام سونپا گیا اور انہیں بے پناہ اختیارات دیے گئے۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے برحق کہا ہے کہ اب تک ماورائے عدالت ہلاک کئے جانے والوں کا حساب کتاب قوم کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ تو خدا بھلا کرے میڈیا اور سوشل میڈیا کا کہ سچ‘ جھوٹ سے نکھر کر سامنے آ جاتا ہے وگرنہ ایک سے ایک جھوٹا فسانہ تخلیق کر کے پولیس مقابلے کے نام پر قوم کو سنایا جاتا رہا ہے۔ نقیب اللہ محسود کا واقعہ ابھی کل کی بات ہے اور اب تک رائو انوار کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جا سکا۔ کبھی فیض احمد فیض نے بے آسرا اور بے بس تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کے بارے میں کہا تھا کہ: کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشاں پکارتا رہا ہے بے آسرا یتیم لہو کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا اب ہمارے حکمران اور سیاست دان بھی گریباں میں منہ ڈال کر نیک و بد کا حساب کریں اور اپنا احتساب کریں۔1947ء سے لے کر اب تک پولیس ریفارمز کے لئے 21رپورٹیں منظر عام پر آئیں مگر کسی رپورٹ کی روح کے مطابق عملاً نفاذ نہیں ہوا۔2002ء کا پولیس آرڈر میں پولیس اصلاحات کا ایک مثالی نقشہ موجود تھا۔ اس آرڈر کو 17ویں اور 18ویں ترمیم میں تسلیم تو کیا گیا مگر سندھ اور بلوچستان پھر 1861ء کے قدیم پولیس ایکٹ پر واپس چلے گئے ۔2017ء میں کے پی کے نے اپنا پولیس ایکٹ بنا لیا جبکہ پنجاب نے 2002ء کے پولیس آرڈر کے نفاذ سے پہلے ہی اس کے اندر کئی مرضی کی تبدیلیاں لا کر اس کی شکل بگاڑ دی گئی۔ ساہیوال کا سفاکانہ سانحہ عمران خان کے لئے ٹیسٹ کیس بن چکا ہے۔ اگر عمران خان سو فیصد حقیقت قوم کے سامنے لے کر نہ آئے اور انہوں نے جھوٹ کا پول نہ کھولا اور جرائم پر پردہ ڈالا اور مجرموں کو قرار واقعی سزا نہ دی اور ظلم صریح کا مداوا انصاف سے نہ کیا تو قوم کا عمران خان صاحب سے اٹھ جائے گا۔