میں نے صدر اور صدارتی انتخاب پر ایک دلچسپ کالم باندھا تھا مگر بعد کی پیش رفت کے بعد مجھے کالم دوبارہ تحریر کرنا پڑا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس کی دلچسپی کم ہو گئی تاہم عارف علوی کے حوالے سے سجاد میر کے لکھے ہوئے کالم نے سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ضرور کیا۔ انہوں نے جناب صدر کی شخصیت کو خوب اجاگر کیا ہے اور ساتھ یہ انہیں بھی لکھنا پڑا ہے کہ عام طور پر صدر کے عہدے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ مزے کی بات یہ کہ میر صاحب نے یہ بتا دیا کہ ممنون حسین صاحب کے حوالے سے دہی بڑے والے کی شہرت بھی انہی کے ایک مذاق کے باعث بنی کہ انہوں نے ازراہ تفنن لکھا تھا کہ ’’آیا گول گپے والا آیا‘‘ مگر لوگ تو بڑے ظالم ہیں وہ تو اتنے اعتماد سے ممنون صاحب کے بارے میں بات کرتے کہ جیسے وہ باقاعدہ ان کی دکان پر دہی بڑے اور گول گپے کھاتے رہے ہیں اور یہی آئٹم جناب نواز شریف کو پسند آئی تھی۔ یہ تو ہمیں اب معلوم ہوا کہ وہ فوراً کوالیفائیڈ ہی نہیں درس نظامی کا کورس بھی پڑھتے رہے ہیں۔ اصل میں چودھری فضل الٰہی کی صدارت کے لطیفے زیادہ تر زبان زد عام رہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایوان صدر میں تقریباً حبس بے جا میں رہتے تھے۔ ایک صبح سکیورٹی والے ایوان صدر کی درو دیوار پر لکھا دیکھ کر حیران رہ گئے۔ تحریر تھا ’’چودھری فضل الٰہی کو رہا کیا جائے‘‘ ڈھونڈیا پڑی کہ یہ نوشتہ دیوار کس کی حرکت ہے۔ ایجنسیوں نے چھان بین کی تو پتہ چلا کہ یہ سب تو چودھری صاحب کا اپنا کیا دھرا ہے کہ وہ ایوان صدر میں بے مقصد اور فارغ رہ رہ کر بیمار پڑ گئے ہیں۔ استعمال نہ ہوں تو جسم کے اعضا بھی معطل ہو جاتے ہیں۔ ممنون حسین صاحب بہرحال اتنے فارغ نہیں تھے۔ جب بھی ہم ادبی کانفرنس میں گئے انہی کو صدارت کرتے پایا کئی بار ہم ان کے مہمان بنے۔14اگست کا مشاعرہ ایوان صدرہی میں پڑھا ایک روز جناب عرفان صدیقی نے بھری محفل میں مجھے کہہ دیا ’’شاہ صاحب! آپ لحاظ نہیں کرتے۔ سب ادیب شاعر میری طرف دیکھنے لگے۔ میں نے عرض کی جناب عرفان صدیقی صاحب آ پ یہ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں‘ کہنے لگے ’’ابھی کل ہی آپ نے کالم میں لکھا کہ ایوان صدر میں عرفان صدیقی کی تقریر سن کر معلوم ہوا کہ ممنون حسین صاحب بہت مصروف آدمی ہیں‘‘ میں نے کہا’’حضور یہ تو کالم کا چٹ پٹا جملہ ہے۔ اس سے کسی کی ہتک مقصود نہیں۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ صدر صاحب کی افادیت تو زیادہ تر یہی ہے کہ کانفرنسوں‘ تقریبوں اور جلسوں کی صدارت کریں۔ ممنون صاحب تو اردو زبان سے بڑا شغف رکھتے ہیں۔ انہوں نے تو نیم پلیٹس تک اردو میں لگانے کی ہدایت کی تھی۔ عارف علوی کے بارے میں تو ہمیں بہت کچھ معلوم ہو گیا کہ وہ نظریاتی آدمی ہیں اور 70ء کی دہائی سے بہت متحرک رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ لائق ترین ڈینٹسٹ ہیں۔ اچانک مجھے معروف شاعرہ ثمینہ راجہ یاد آ گئیں۔ جب میں اور ڈینٹل سرجن کوثر محمود ان سے ملے تو میں نے تعارف کرواتے ہوئے کہا ’’ثمینہ ڈاکٹر کوثر محمود شاعر بھی اچھے ہیں اور ڈینٹل سرجن بھی۔ ثمینہ کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہنے لگیں’’اچھا آپ ہیں ڈاکٹر کوثر محمود جو خوبصورت لوگوں کے گندے گندے دانت نکالتے ہو۔ اب کیا کیا جائے یہ بھی تو زبان ہی کی بات ہے کہ عارف علوی کو بھی تو ہر آدمی اپنے دانت ہی دکھانے آتا ہے۔ جو دانت دکھاتا ہے دانت ہی اس کے نکالے جاتے ہیں۔ آنکھوں کے ڈاکٹر بہرحال مختلف ہوتے ہیں مگر انہیں ہی لوگ آنکھیں ہی دکھاتے ہیں۔ کم از کم وہ اس بہانے آنکھیں تو دیکھتے ہیں۔ فراز یاد آئے: ان کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز سونے والوں کی طرح جاگنے والی جیسی فراز صاحب ہی سے یاد آیا کہ شبلی فراز نے بھی پہلی صدارت اسی تقریب کی کی جو ہمارے دوست محبوب ظفر نے فراز کی برسی پر منعقد کی۔بہرحال بات ہو رہی تھی پاکستان کے صدر کی جس پر اس مرتبہ بڑی سیاست ہوئی اور ہر کسی نے اپنی اپنی چال چلی۔ اس انتخاب میں سب سے زیاہ شہرت مولانا فضل الرحمن کو ملی اور سب سے اچھی چال زرداری نے چلی کہ اعتزاز احسن کو بھی خوش کر دیا اور اوپر تک دوسروں کو بھی۔ پورا بندوبست کرکے کہ کہیں اعتزاز احسن جیت نہ جائے‘ انہیں میدان میں اتارا گیا۔ دوسری چال ن لیگ کی تھی جو ٹھیک تو تھی مگر اس پر لعن طعن بہت ہوئی۔ اظہار الحق صاحب نے پورا کالم ہی اس پر باندھ دیا ن لیگ نے مولانا کو پیپلز پارٹی سے یا پیپلز پارٹی کو مولانا سے برگشتہ کر دیا۔ ایک طرف یہ اچھا بھی ہوا کہ رسوائی بٹ گئی۔ کچھ ن لیگ کے حصے میں آئی اور کچھ پیپلز پارٹی کے حصے میں فائدہ زرداری صاحب کو کچھ نہ کچھ ہوا۔ آپ سمجھتے ہیں بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس انتخاب کی ہنگامہ آرائی میں سیاسی مسئلہ کوئی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی اخلاقی پرابلم تھی۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کس کو نہیں معلوم تھا کہ عارف علوی کا صدر بننا طے ہے اور یہ کام ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے سپرد تھا۔ اس شو فائٹ میں: لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دم ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ عارف علوی ایوان صدر میں یا صدارت میں کچھ تبدیلی ضرور لائیں گے کہ وہ بہت محترک ہیں۔ وہ روایتی صدر بن کر نہیں رہیں گے کہ جن کے ذمہ صرف آرام کرنا ہوتا ہے یا کسی تقریب کی صدارت کرنا مسئلہ تو ان لوگوں کا ہو گا جو ایوان صدر کی دعوتیں انجوائے کرتے رہے ہیں ۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ عمران خاں کے وژن کی سادگی یہاں بھی تو آئے گی شاید وہ ثابت کر سکیں کہ: کچھ بھی نہیں ہوں میں مگر اتنا ضرور ہے بن میرے شاید آپ کی پہچان بھی نہ ہو آخر میں دو اشعار: عجب شدت غم ہے کہ داغ جلتا ہے کسی کی یاد کا اب تک چراغ جلتا ہے خدا کے واسطے روکو نہ مجھ کو رونے دو وگرنہ شعلہ دل سے دماغ جلتا ہے