گزشتہ برس اگست میں پاکستانی وزیرخارجہ نے اس معاملے پر سعودی قیادت اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کو آڑے ہاتھوں لیا جس پر سعودی عرب نے ناراضگی کا اظہار کیا اور پاکستان کو دی گئی ادھار رقم بھی واپس مانگ لی گئی تھی۔ عالم یہ ہے کہ مارچ 2019 میں بھارت کی اس وقت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ابوظہبی میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔حالانکہ محض ایک ماہ قبل بھارت اور پاکستان کی فضائی جھڑپوں میں کم از کم ایک بھارتی جنگی طیارہ مار گرایا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ ممالک محض پاکستان کی خاطر اب بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے سے گریز کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں پاکستان کی مختلف امور پر حساسیت کی کوئی فکر ہے۔ مشرق وسطی کے ممالک خاص طور پر متحدہ عرب امارات کی لیڈرشپ اپنے ملک کی عالمی کھلاڑی کی شناخت چاہتی ہے نہ کہ ایک علاقائی ملک کے۔ اس کے سیاسی عزائم بلند اور گراں بہا مالی وسائل اس کی سفارتی کامیابیوں میں چار چاند لگادیتے ہیں۔ پاکستان ان کے گیم پلان میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ پچیس لاکھ پاکستانی ہنر مند سعودی عرب میںاگرچہ ابھی تک مقیم ہیں لیکن اب سعودی عرب کو ہنرومندوں کے لیے محض پاکستان پر انحصا رکی ضرورت نہیں۔ بنگلہ دیشں، بھارت، افغانستان، نیپال اور دنیا کے بے شمار علاقوں سے سستی اور نرم شرائط پر لیبر دستیاب ہوجاتی ہے۔ دوطرفہ تجارت کا بھی کوئی حال نہیں۔موجودہ تجارتی حجم 3.6 بلین ڈالر ہے۔ ستم یہ ہے کہ درآمدی حجم 3.2 ہے۔ بیشترحکومتوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی شراکت داری کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس کے برعکس سعودی عرب اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم 33 ارب ڈالرسے تجاوز کرچکا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے دوطرفہ تعلقات کا ماضی قریب میں زیادہ تر دارومدار دفاعی یا اسٹرٹیجک نوعیت کاہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی اداروں کے درمیان تعلقات ساٹھ کی دہائی سے بہت گہرے اور دوستانہ رہے ہیں۔ پاکستان سعودی عرب کے ہزاروں فوجیوں کو عسکری تربیت فراہم کرتاہے اور اس کی فوج بھی سعودی عرب میں تعینات ہے۔ دوطرقہ تعلقات میں ازسر نو گرم جوشی پیدا کرنے میں پاکستان اور سعودی عرب کی عسکری لیڈرشپ کا بنیادی کردار رہاہے۔ روایتی طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج پر پاکستان کاگہرا اثرونفوذ رہاہے۔جس کی وجہ سے وہ بھارت سے دور رہے۔عالم یہ تھا کہ متحدہ عرب امارات کے پہلے پانچ ایئر چیف پاک فضائیہ کے افسر رہے ہیں۔ پاکستان 1967 سے مسلسل سعودی عرب کی فوج اور فضائیہ کے لیے تربیت کار مہیا کرتا ہے۔ پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب میں تعینا ت ہیں حتیٰ کہ پاکستانی کمانڈوز ریاض میں شاہی خاندان کی حفاظت پر بھی معمور ہیں۔ مگر بھارت پاکستان کو ایسے میدانوں سے بھی بے دخل کررہاہے جہاں پہلے پاکستان کی بالادستی تھی ۔اب بھار ت کے ان ممالک کے دفاعی اداروں کے ساتھ بھی تعلقات میں نمایاں اضافہ مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ چھ برسوں میں آٹھ دفعہ عرب ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔ تین بار متحدہ عرب امارات اور دو بار سعودی عرب کا۔وزیراعظم مودی کو متحدہ عرب امارات کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ گذشتہ سال اکتوبر میںسعودی عرب کے دورے کے دوران دونوں ممالک کے مابین اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کونسل کا قیام عمل میں آیا ۔ اس طرح بھارت برطانیہ، فرانس اور چین کے بعد دنیا کا چوتھا ملک بن گیا جس کے ساتھ سعودی عرب نے اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کی ۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے ''وژن -2030روڈ میپ کے مطابق بھارت کو سعودی عرب کے آٹھ اسٹرٹیجک شراکت داروں چین، برطانیہ، امریکہ، فرانس، جرمنی، جنوبی کوریا اور جاپان میں سے ایک قرار دیاگیا ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ 2018 میں بھارت نے سعودی عرب سے 21.2 بلین ڈالر کا خام تیل درآمد کیا، پاکستان نے 1.9 بلین ڈالر کا درآمد کیا۔ پاکستان بمشکل سالانہ پچیس ارب ڈالر کے لگ بھگ کل برآمدات کرپاتاہے۔ عرب ممالک کی دلچسپی بھی پاکستان میں اس لیے بھی کم ہوتی گئی ہے کیونکہ پاکستانی مارکیٹ بھاری سرمایہ کاری کی صلاحیت نہیں رکھتی۔اس کے برعکس سعودی کمپنیاں نہ صرف بھارت کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات سے فائدہ اٹھانے کی خواہاں ہیں بلکہ انہوں نے زراعت اور ٹیلی کمیونیکیشن سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ (جاری ہے)