پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری کا کوٹری میں خطاب خاصا سخت تھا۔ فرمایا عمرانی حکومت سندھ سے دشمنی کر رہی ہیں، ہم نے اسلام آباد پرچڑھائی کی تو جعلی حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ عرض ہے کہ دشمنی مناسب لفظ نہیں، مثبت رپورٹنگ کے خلاف ہے۔ مثبت رپورٹنگ کا تقاضا ہے کہ اس لفظ کو دوستی سے تبدیل کردیا جائے۔ یوں کہا جائے کہ عمرانی حکومت سندھ سے ’’دوستی‘‘ کر رہی ہے۔ فقرہ مثبت ہو جائے گا لیکن مبنی بر حقیقت پھر بھی نہیں ہوگا، اس لیے کہ عمرانی حکومت صرف سندھ سے نہیں، سارے ملک سے دوستی نبھانے پر تلی ہوئی ہے اور خوب خوب نبھا رہی ہے۔ گیس سندھ ہی نہیں پنجاب کی بھی بند ہے۔ سولہ سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ بھی محض سندھ نہیں، پنجاب میں بھی ہورہی ہے۔ چینی صرف سندھ میں نہیں، پنجاب میں بھی 8 روپے کلومہنگی ہوئی ہے۔ گزشتہ ماہ کے دوران مہنگائی میں چھ فیصد سے زیادہ مزید اضافہ صرف سندھ نہیں، پنجاب میں بھی ہوا ہے۔ دوائیں پندرہ فیصد مہنگی صرف سندھ نہیں، پنجاب میں بھی ہوئی ہیں۔ وفاق کے ترقیاتی منصوبے صرف سندھ ہی نہیں، پنجاب میں بھی بند ہوئے ہیں بلکہ یہاں تو آپ خصوصی شکر کیجئے کہ سندھ میں آپ کی حکومت ہے، صوبائی ترقیاتی منصوبے جاری ہیں۔ پنجاب آ کر دیکھئے۔ رہی بات دھڑن تختے کی تو کیا کہا جا سکتا ہے کہ کس کا ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ دوائیں 9 فیصد مہنگی حکومت نے کرنا تھیں، کردیں لیکن وجہ کیا خوب بتائی۔ فرمایا کہ ڈالر مہنگا ہو گیا۔ یعنی دوائیں مہنگی کرنے میں حکومت کا قصور نہیں، سارا قصور ڈالر کا ہے جو خودبخود مہنگا ہوگیا۔ اس حد تک خودبخود کہ خان صاحب کو اخبارات دیکھ کر پتہ چلا۔ ویسے ایک ستارہ شناس کا کہنا ہے کہ بہت جلد اس راج دلارے کی چہرہ کشائی ہونے والی ہے جس نے ڈالر ڈرامے میں ایک سو ارب کے وارے نیارے کمائے۔ شاید وہ ٹھیک ہی کہتا ہو، نقاب کشائی کب کس کی ہو جائے کون جانتا ہے۔ اب دیکھ لیجئے، محترمہ کی امریکہ والی جائیدادوں کی نقاب کشائی بھی کس طرح خودبخود اور اچانک ہو گئی۔ بہرحال، حکومت نے ساری ذمہ داری ڈالر پر نہیں ڈالی۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ مہنگی بجلی اور مہنگی گیس کی وجہ سے بھی قیمتوں کو بڑھانا پڑا۔ اب یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ بجلی اور گیس بھی ڈالر کی طرح خود ہی مہنگی ہوگئی، حکومت کا ذمہ تو یہاں بھی دوش پوش۔ ٭٭٭٭٭ وزیر خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ فی الحال آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ آپ جائیں یا نہ جائیں، عوام کو کیا فرق پڑتا ہے۔ جتنی بے حساب مہنگائی آپ نے کرنی تھی، کردی، بے حساب ٹیکس لگا دیئے اور ابھی مزید 23 تاریخ کو لگنے والے ہیں۔ آئی ایم ایف نہ جانے کی خبر کسی اور کو سنائیے، عوام کو مت سنائیے کہ ان کا معاملہ تو یوں ہوگیا کہ ع اپنی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ پچھلے مہینوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے۔ سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ سات لاکھ کے لگ بھگ بے روزگار ہو گئے۔ وجہ سمجھ میں بھی آئی ہے۔ کارخانے بند ہورہے ہیں، لگ بھگ سبھی نجی ادارے چھانٹیاں کر رہے ہیں، کھٹلے دھڑکا لگانا دہشت گردی جیسا جرم بنا دیا گیا تو سات کیا، سترہ لاکھ کی گنتی آ جائے تو بھی لوگ مان لیں گے۔ یہاں بھی احسن اقبال کو وہی مشورہ دیا جانا چاہیے جو بلاول کو دیا گیا تھا کہ بیروزگاری منفی لفظ ہے، مثبت رپورٹنگ کے خلاف ہے۔ یوں کہیے کہ سات لاکھ افراد باروزگار ہو گئے اور ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھئے کہ سفر ابھی تھمے گا نہیں، اس لیے کہ خان صاحب نے ایک کروڑ افراد کو ’’باروزگار‘‘ کرنے کا وعدہ کیا ہے، چھ ماہ میں سات لاکھ کو باروزگار کیا۔ سال میں چودہ لاکھ، پانچ سال میں 70 لاکھ۔ 30 لاکھ کا ڈیفی شٹ پھر بھی رہ جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ وفاقی وزیر اطلاعات نے فرمایا ہے کہ نرم اور ملائم بستروں پر سونے والوں کے حساب کتاب کا وقت آ گیا۔ کیوں نہیں۔ بنی گالہ کے کھردرے اور پتھریلے فرش پر سونے والے بوریہ نشینوں کی حکومت جو آ گئی ہے۔ مزید فرمایا، این آر او نہیں ہوگا، احتساب منطقی انجام کو پہنچے گا۔ لیکن زرداری کی حد تک تو این آر او ہو چکا اور رازدان حضرات بتاتے ہیں کہ انہوں نے زوربازو سے لیا۔ رازداں حضرات کہتے ہیں کہ جعلی کھاتوں کی طلسم بہت زیادہ ہوشربا سہی لیکن معاملہ آگے بڑھا تو ’’فتح بلوچستان‘‘ کے راز بھی کھل جائیں گے یعنی وہی اصغر خان کیس والا ’’ری پلے‘‘ ہو سکتا ہے۔ جہاں پر جلتے ہوں، وہاں پروں والے پر نہیں مارتے۔ آگے خان صاحب خود یا وہ سمجھدار ہیں۔ ٭٭٭٭٭ این آر کا معاملہ گویا اب صرف نوازشریف پر اٹکا ہوا ہے۔ گزشتہ روز ملتان میں خطاب کرتے ہوئے باغی سیاستدان جاوید ہاشمی نے کہا کہ نوازشریف این آر او لینے سے انکاری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جیل میں نوازشریف کی جان لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ دونوں فقرے الگ الگ شائع ہوئے ہیں یعنی کوئی باہم تعلق ہاشمی صاحب نے واضح نہیں کہا کہ آیا جان لینے کی کوشش اس لیے کی جا رہی ہے کہ وہ انکاری ہیں؟ ایک دلچسپ بات اور کہی، یہ کہ عمران خان کو عبوری دور کے لیے لایا گیا اور یہ عبوری دور اب ختم ہونے والا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ منظور وسان کو خواب آئے تو پتہ چلے۔ اتنی بات البتہ اب سمجھ میں آنے لگی ہے کہ قوم کو ’’سپرد عبور‘‘ کرنے والے بھی پریشان ہیں کہ اب کیا کیا جائے؟