شبیر حسین ڈوگر نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے کہ عمران خان نے جسٹس وجیہہ الدین صاحب سے انصاف نہیں کیا تھا۔ان کی سفارشات تسلیم کئے جانے کے لائق تھیں اور آج وجیہہ الدین صاحب عمران خان سے انصاف نہیں کر رہے۔یہ بڑے لوگ توازن کیوں کھو دیتے ہیں؟شاید ابھی تک پورے بڑے ہوئے نہیں ہوتے۔شبیر حسین آج کل وکیل ہوتے ہیں۔لڑکپن سے سیاست کا چسکا بھی ہے اور دانشوری کا تڑکا بھی۔ان کے سوالات ہمیشہ گہرے غور و فکر کا نتیجہ ہوتے ہیں۔انہیں بات کرنے کا سلیقہ بھی کہنے کا قرینہ بھی ۔ابتدائے جوانی میں اپنے علاقے میں نائب ناظم منتخب ہوئے تھے، جب فیصل آباد میں ہم نے تحریک انصاف کی ممبر شپ کیلئے تحریک شروع کی تو لوکل باڈیز کے دو منتخب نائب ناظمین نے ابتداً تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی‘ان میں ایک لطیف نذر تھے جو آج کل ممبر صوبائی اسمبلی ہیں اور دوسرے شبیر حسین تھے۔عمران خاں ایک ہی دن ان دونوں کے ڈیرے پر تشریف لے گئے تھے۔دونوں علاقے کے لوگوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا تھا۔تب تک ممبران پارلیمنٹ تو دور کی بات کوئی ناظم تک تحریک انصاف میں شامل نہیں ہوا تھا۔ہاں مگر ملک اکبر پہلے ناظم۔ وہ شروع دن سے راقم کے ساتھ رہے اور اب بھی ہیں۔انہوں نے کبھی شکست نہیں کھائی دراصل ملک اکبر کی شہرت سیاسی کارکن سے زیادہ اپنے علاقے میں اپنی بساط سے بڑھ کر عوامی خدمت (سوشل ورکر) کی ہے‘فیصل آباد میں ملک اکبر نے پہلا خواتین کنونشن منعقد کیا تھا‘اسی دوران عمران خاں نے ان کے بنائے زچہ بچہ ہسپتال کا افتتاح بھی کیا‘یہ سب تحریک انصاف کے لئے بارش کے اولین قطرے تھے‘فیصل آباد تحریک انصاف کے بانی رکن اور ضلع فیصل آباد کے پہلے صدر بلکہ سدابہار ضلعی صدر سجاد حیدر بھی پیپلز کالونی سے کونسلر منتخب ہوئے تھے اور نواز شریف کے رشتے دار چوہدری شیر علی میئر ہوا کرتے تھے اور سجاد حیدر ان کی اپوزیشن بھی تھے۔شریف النفس کم گو اور محنتی سجاد حیدر تھے۔ ذاتی سیاست و وجاہت کے لئے کبھی کوشش نہیں کی‘ایسے مخلص اور بے غرض لوگوں کی سیاست کی دنیا میں موجودگی شاید ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔یہی مخلص‘ بے غرض‘ محنتی کارکن لوگوں کو لیڈر بھی بنا دیتے‘ان کی کوشش اور محنت سے لیڈر مشہور آدمی بن جاتا ہے اور مشہور آدمی کو لوگ ’’بڑا آدمی‘‘ سمجھنے لگتے ہیں۔حالانکہ مشہور لوگوں میں شاید ہی کوئی ’’بڑا‘‘ بھی ہو۔ ہمارے دوست طارق پیرزادہ‘ جو پیر ہیں‘ سابق بیورو کریٹ‘مشکل دنوں میں اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر اور چیف کمشنر بھی رہے ،پھر بھی عزت کے ساتھ کوئی ناکامی اور بدنامی لئے بغیر ریٹائر ہو گئے‘نجی محفل میں وہ گاہے کہا کرتے ہیں۔خیال رہے کہ طارق پیرزادہ وسیع المطالعہ بھی باذوق اور لکھنے پڑھنے کے فن سے آگاہ بھی ‘اسلام آباد کے دانشوروں کا وسیع حلقہ ان کا مداح ہے۔ وہ کہتے ہیں‘ سچ پوچھو تو کہتے نہیں فرماتے ہیں‘ کہ پیروں میں ولی کوئی کوئی اور مریدوں میں ولی تقریباً ہر کوئی۔ وہ پیروں کی طبع پر گراں گزرنے والے اقبال کے اشعار کو دلیل بنانے سے گریز بھی نہیں کرتے‘ مگر وہ پیروں اور ان کے مریدوں سے بچ نکلتے ہیں۔ان کا بچ نکلنے کا سبب ان کا خود پیر اور پیرزادہ ہونا نہیں بلکہ وہ اس کام کے لئے اقبال کے فارسی کلام سے استفادہ کرتے ہیں کہ ’’زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دائم‘‘ استادوں اور پیران طریقت میں ولی شاید کوئی اور مریدوں میں ولی ہر کوئی کے بارے میں ان کی دلیل قوی ہے‘ہمارے لئے تو وہ کہتے مگر دراصل فرماتے ہیں کہ ’’مرید نہایت خلوص اور سادگی کے ساتھ دین کی راہ پر چلنے اور اس راہ میں اپنے فکر و عمل کو پوری طرح لگا دیتا ہے اور اس کا دھیان ہمہ وقت اس راہ پرہے جو اسے منزل عشق تک رہنمائی کرے اس کی یہی ادا معبود حقیقی کو مرغوب ہے‘جس کی کوئی ادا محبوب کو مرغوب ہے‘وہی اس کا دوست اور ولی ہے‘رہ گئے پیران اور اساتذہ، انہیں خبر ہی کیا ہے انہوں نے تو اس محکمے کو پیشہ اختیار کیا ہے‘پیٹ بھرنے کا طریقہ‘فریب کھائی امت کی غربت پر اپنی دولت شہرت کے محلوں کو تعمیر…جس نے اللہ کے نام اور آیات کو پیشہ بنا لیا‘ ان پیشہ وروں میں ’’ولی‘‘ کہاں کوئی پیدا ہے؟ احمد فراز نئے دور کا مشہور اور مقبول شاعر‘جس کے فرزند شبلی فراز ہیں‘شبلی فراز تحریک انصاف کے سینیٹر ہیں۔ اس لئے کہ وہ احمد فراز کے بیٹے ہیں اور وہ آج کل عمران خاں کی کابینہ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر ہیں‘وہ اکثر اباّ کے شعر کو غالب کا اور غالب کے اشعار کو فراز کا کہہ کے سنا دیتے ہیں‘جتنے سیاست دان گدی نشین ولی اللہ ہو سکتے ہیں‘اسی قدر مشہورو لوگوں میں بڑے آدمی پائے جانے کا امکان ہے۔ آج کا کالم کچھ تجریدی سا ہو گیا ہے‘کچھ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘ہر کوئی حسب استطاعت اپنا مطلب اخذ کر سکے گا‘بات تو نکلی تھی، جسٹس وجیہہ الدین کے اس بیان کی کہ عمران خاں کے گھر کے اخراجات جو ماہانہ پچاس لاکھ تک ہیں‘یہ اخراجات جہانگیر ترین ادا کیا کرتے ہیں‘جج صاحب جو حقیقتاً وجیہہ و شکیل ہیں۔دیانت دار اور اچھی شہرت کے مالک و حامل ہیں‘تحریک انصاف میں ان کی شمولیت نے اس تحریک کو عوامی اعتبار بخشا اور تحریک انصاف میں اعتماد پیدا ہوا‘وہ بڑا نام تھا اور گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا گیا‘اتنی گرم جوشی سے کسی اور کو خوش آمدید نہیں کہا گیا تھا‘ماسوائے جاوید ہاشمی کے۔ جاوید ہاشمی بھی جب تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے کراچی روانہ ہوئے تھے‘راقم الحروف کے ہمراہ ملتان سے کراچی‘ کراچی میں اسی شام تحریک انصاف کا جلسہ ہونے کو تھا‘وہی جلسہ جو تحریک انصاف کے علاوہ کراچی کی تاریخ کا بھی نمایاں ترین اجتماع تھا‘اسی دن کراچی نئے دور میں داخل ہوا‘الطاف حسین کے آہنی شکنجے سے نکل کر تحریک انصاف کی چھتری کے نیچے آتا ہوا شام ہوئی‘ تو ہم لوگ اونچے سٹیج سے سامنے انسانی سمندر کو شمار کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے‘عارف علوی صاحب کی باچھیں کھلی جا رہی تھیں‘خود عمران خاں بے بہا‘ انسانی سمندر کو حیرت کی نظروں سے دیکھ رہے تھے‘کہ اچانک حفیظ اللہ خاں نیازی کے ہمراہ‘ جی ہاں وہی حفیظ اللہ جس کے ظہرانے میں شرکت کے لئے ابھی روانہ ہونا تھا‘ مگر کالم کی تکمیل اس راہ میں حائل ہے‘خالد بھائی‘ کہتے ہیں جلدی کرو‘شفیق صاحب تیار ہو بیٹھے ہیں‘مشتاق صاحب کو زیادہ جلدی ہے کہ ظہر کی نماز پڑھ کر نکلیں کہ اس کے گھر تک ایک گھنٹے کی مسافت ہے‘ذکر اسی حفیظ اللہ کا ہے جو عمران خان کے چچا زاد بھائی ہونے کے علاوہ ان کے بہنوئی بھی ہیں‘انہوں نے بڑے بڑے صحافیوں‘دانشوروں‘طالب علموں‘سیاسی نابغوں کو گمراہ کرکے تحریک انصاف کی صفوں میں شامل کیا اور اقتدار جب تحریک انصاف کے قدموں کے نیچے آٓنے کو تھا‘دستار ان کے سروں پر بس سجنے ہی والی تھی تو خود ’’بدک‘‘ کر دور جا کھڑے ہوئے۔تحریک انصاف کو تو کچھ نہ کہا‘مگر اس کے بانی رہنما کے ’’لتے‘‘ لینے لگے ،اسی حفیظ اللہ نیازی کے ہمراہ جاوید ہاشمی سٹیج پر نمودار ہوئے اور سپیکر پر جونہی اعلان ہوا کہ جناب جاوید ہاشمی بھی جلسہ میں شمولیت اور خطاب کے لئے پہنچ چکے ہیں‘تو عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا‘عوام کے اندر سے شعور اٹھا، اک بہادر آدمی ہاشمی ہاشمی‘اس کی تکرار جاری تھی‘جاری رہی‘ ہاشمی صاحب کے سامنے آ کر جلسہ عام کی طرف ہاتھ ہلایا تو اب نعروں کا رخ بہادر آدمی سے باغی کی طرف مڑ گیا‘جلسہ باغی باغی باغی کی صدائوں سے گونجنے لگا اور گونجتا رہا‘گونجتا رہا تادیر …ناتمام۔