بولے تو لفظ باعث الزام ہو گئے ہم چپ رہے تو اور بھی بدنام ہو گئے تفی تند و تیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سرشام ہو گئے ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ انسان کو کسی پل سکون نہیں‘ اگلے لمحے کا خدشہ ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ ایک چل چلائو ہے، سو ہم چلے جا رہے ہیں امید پر دنیا قائم ہے مگر ناامیدی بھی ہماری دیکھنے والی ہے ۔ لیکن میں آپ کو بالکل بھی بور نہیں کروں گا کہ ہمارے پاس ہنسنے ہنسانے کے لیے بہت کچھ ہے کہیں تو آپ کو ایوان بالا میں لیے چلتے ہیں کہ جہاں دودھ سے دھلی زبان رائج ہے مگر اس سے بھی پہلے ایک سنا سنایا نہایت دلچسپ واقعہ ضرور پڑھ لیں۔ ایک دوست اپنے دوست سے ملنے گیا تو وہاں اس نے ایک طوطا دیکھا جو کہہ رہا۔ کس کمینے آدمی کو دوست بنا رکھا ہے۔ آنے والے کو طیش آیا اور اس نے دوست سے کہا کہ تم طوطے سے ذلیل کروا رہے ہو۔ اس نے واک آئوٹ کردیا۔ دوست نے طوطے کو مارا اور اپنے دوست کویقین دلایا کہ طوطا دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔ اطمینان کرنے کے بعد دوست دوبارہ آیا تو طوطے پر نظر رکی۔ طوطا خاموش رہا۔ دوست اٹھ کر جانے لگا تو جاتے جاتے طوطے کی طرف دیکھا۔ طوطا بولا‘ سمجھ تو تم گئے ہو گے۔ سینٹ میں مشاہداللہ اور عتیق شیخ کی دوسرے روز بھی جھڑپ اور گالم گلوچ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ غیر پارلیمانی الفاظ کو کارروائی سے حذف کردیا گیا جبکہ پارلیمانی زبان ساری دنیا نے سن رکھی ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کہا کرتے ہیں کہ اب اردوئے معلیٰ نہیں بلکہ اردوئے محلہ چلتی ہے۔پس شے کا بھی چلن ہو جائے۔ پارلیمنٹ میں بھی باقاعدہ ریٹنگ ہوتی ہے اس حوالے سے پہلے نمبر پیپلزپارٹی کے عبدالقادر پٹیل ہیں اور وہ مراد سعید پر ایسے رواں ہوئے ہیں کہ بس‘ کہیں ہم کو سنا کرے کوئی۔ دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا ہم نے یہ جانا گویا یہ بھی اپنے دل میں ہے بہرحال اس پارلیمانی زبان کی طرح تو شیخ رشید نے ڈالی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ وہ جس زمانے میں بے نظیر محترمہ کے خلاف زبان درازی کیا کرتے تھے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ہم ایسی زبان سننا چاہتے ہیں۔ میڈیا کی بھی یہی ضرورت ہے کہ ہڈی ڈالو اور تماشا دیکھ۔ مجھے سب سے زیادہ ہنسی اس بات پر آئی کہ بیرسٹر سیف نے کہا کہ ایون کی بے توقیری ہوئی۔ ویسے یہ خوش گمانی بھی اچھی بات ہے۔ ویسے اس وقت تو ایسے لگتا ہے جیسے کمپیوٹر کی سکرین پر ایک ہی وقت پر کئی پروگرامز کھل گئے ہوں۔ حکومت کافائدہ بھی اس میں ہے کہ اتنے ایشو سامنے آ جائیں کہ کسی کی سمجھ میں ہی کچھ نہ آئے۔ اخبار دیکھیں تو کہیں نظر ہی نہیں ٹھہرتی۔ مسائل در مسائل اور شور شرابا۔ ہر طرف اک شور برپا اور لوگوں کا ہجوم ہم نے گویا شہر سارا اپنی جانب کر لیا آپ ٹیکسز ادا کرنے کا معاملہ لے لیں کہ اس میں بھی شاہد خاقان عباسی پہلا نمبر لے گئے۔ اسی لیے وہ کچھ بے باک بھی ہیں اور حکومت کو کھری کھری سنا بھی رہے ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ نے بھی کہہ دیا کہ نیب ریفرنس کا مقصد شاہد خاقان عباسی کی زبان بند کروانا ہے۔ خیر کئی پی ٹی آئی کے لوگ سامنے آئے جنہوں نے ٹیکس ادا نہیں کیا اور کچھ چالاک ممبرز یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی تنخواہ سے ٹیکس کٹتا ہے۔ یعنی وہ تو مجبوری ہے آپ باقی معاملات ،کاروبار کی بات کریں۔ دوسری طرف ابھی تک عابد گرفتار نہیں ہورہا۔ کسی من چلے نے لکھا ہے کہ اگر عابد گرفتار نہیں ہورہا تو کسی زاہد ہی کو پکڑ لیں۔ بہرحال عابد کے 7 خاکے جاری ہو چکے ہیں۔ ایک مرتبہ وہ 3 میٹر کے فاصلے سے پولیس کو چکمہ دے گیا۔ عوام امید رکھیں کہ اس کا ڈراپ سین بھی ایک روز ہو جائے گا۔ تیسری جگہ یہ بحث چل رہی ہے کہ عمران خان نے مردانہ صلاحیت سے محروم کرنے کی بات کی ہے اس پر تمسخر اڑانے پر عفت عمر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ رواں مسائل میں سکولوں اور کالجوں کے کھلنے کا معاملہ بھی ہے کہ کورونا شروع پوسٹیں لگ رہی ہیں۔ اگرچہ میں اس بات پر یقین نہیں کرتا مگر عوام کو حکومت پر اعتماد کیوں نہیں۔ جو بھی ہے شفقت محمود نے کہا ہے کہ شیڈول تبدیل نہیں ہوا تاہم سندھ میں مڈل کلاس سکول بھی نہیں کھلیں گے۔ ویسے عجیب بات ہے کہ بچے بھی کمال ہوتے ہیں۔ بعض بچوں کو پانچ ماہ کی چھٹیوں کے بعد بھی سکول جانے کے خوف سے ہی بخار اور نزلہ ہوگیا ہے۔ بہت کچھ چل رہا ہے مگر بنیادی بات وہیں کی وہیں ہے۔ جی آپ بنیادی بات پر حیران نہ ہوں۔ جناب آٹا چکیوں میں 80 روپے کلو تک پہنچ گیا ہے۔ شکر ہے کہ وزیراعظم آج کل بہت مصروف ہیں اور ان کے پاس نوٹس لینے کا وقت نہیں وگرنہ یہ آٹا 100 روپے پر جا کر بھی نہیں رکے گا۔ آج کل وزیراعظم بجلی کے پیچھے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ بجلی کے شعبے میں حکومت اصلاحات کے لیے پرعزم ہے۔ مزید یہ کہ بجلی کی سستی اور بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔بجلی تو دو تین گنا مہنگی ہو چکی۔ عابد نے کہا تھا: اور کہاں لے جائو گے لگ گئے ہم دیوار سے بھی یہاں تک میڈیا کی آزادی کاتعلق ہے تو یہی میڈیا اور جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ عارف نظامی صاحب نے کہا ہے شہید بینظیر کا جملہ ہے کہ جمہوریت کا شور شرابا آمریت کی موت جیسی خاموشی سے کہیں بہتر ہے۔ یہ کیسی دانشورانہ بات ہے۔ اس میں حکومت کا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کا برا بھلا کہہ کر کتھارسز ہو جاتا ہے۔ اب دیکھئے ناں لوگ مہنگائی سے برے حالوں میں ہیں تو وہ کچھ تو کہیں گے۔ بعض اوقات سوشل میڈیا پر ایسا ردعمل آتا ہے کہ بے ساختہ ہنسی نکل جاتی ہے۔ ایسے میں اگر حکومت درگزر کرے تو اس کی صحت کے لیے اچھا ہے۔ مثلاً ایک پوسٹ یوں تھی زنا البجر کا قانون پاس ہونا تھا مگر عزت بالجبر کا قانون پاس ہوگیا۔ اب آپ اگر اس تخلیقی جملے کی داد نہیں دے سکتے تو بے داد بھی نہ ہوں۔ یہ ہمارا ملک ہے ہم مگر ان بدبختوں کا محاسبہ کیوں نہ کریں کہ جو سب کچھ اٹھا کر دوسرے ممالک چلے جاتے ہیں ان کی اولادیں بھی وہاں ہیں اور کاروبار بھی۔ وہ غدارہی کہلائیں گے جن کا مرنا جینا لوٹے ہوئے پیسوں پر باہر لکھا ہوا ہے۔