اسی عنوان سے ایس ایم ظفر نے برسوں پہلے ایک کتاب لکھی، لگتا ہے آج بھی کچھ نہیں بدلا۔ آج بھی سیاست عدالت میں ہو رہی ہے۔کون سا فیصلہ ہے جو سیاست دان مل بیٹھ کے کر پاتے ہیں۔الیکشن کی تاریخ لینی ہو یا وزیر اعلیٰ نے حلف اٹھانا ہو، اعتماد کے ووٹ کا معاملہ ہو یاکسی سیاست دان کے انتخاب لڑنے کی بحث ، ہر فیصلہ عدالت جا کر ہی ہوتا ہے ۔ یہی نہیں سیاست دانوں کی نااہلی کے لیے بھی یہی گھر مناسب مان لیا گیا ہے، پارلیمنٹ کے فیصلوں کی توثیق بھی اب یہیں سے ہوتی ہے۔عدالتوں کو سیاستدانوں نے سیاست کا مرکز بنا دیا ہے ۔ اب توذرا سا اختلاف ہوتا ہے تو ایک فریق کہتاسنائی دیتا ہے ، جائو عدالتوں کے پاس۔ کراچی انتخابات میں دھاندلی کی شکایت ہو تو دوسرا فریق کہتا ہے جائو جا کے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائو۔جب ہر کام عدالت میں جا پہنچے گا تو عدالتیں سیاسی کیوں نہ ہوں گی۔ فواد چودھری کو گرفتار کیا گیا۔ منصوبہ بنانے والوں نے سوچا اسے ایک دفعہ عدالت تک لے جائو پھر ہم دیکھ لیں گے۔ فواد چودھری انصاف کے لیے عدالت پہنچے تو ٹی وی اسکرینوں پر سیاست کی بھرمار ہوگئی، ریمانڈ پر سیاست ہونے لگی۔ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات پر اختلاف ہوا تو فریقین عدالت کے پاس جا پہنچے۔ ایک عدالت اندر لگی تھی دوسری باہر۔ اندر دلائل دیے جارہے تھے کہ فوری انتخابات ممکن نہیں ۔ باہر رانا ثنا اللہ فرما رہے تھے ،انتخابات تو ہو ہی نہیں سکتے۔ عدالت نے فیصلہ دیا ہر صورت 31 دسمبر کو انتخابات کرائے جائیں، عدالت اس مرتبہ ہار گئی، سیاست جیت گئی۔ انتخابات نہیں ہوئے، حکومت پھر عدالت کے پاس گئی،اب مہینہ بیت گیا ہے ،چار مرتبہ تاریخ پڑ چکی ہے اور اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات قصہ پارینہ بن چکے ہیں ۔ دو روز پہلے تحریک انصاف لاہور ہائیکورٹ کے پاس چلی گئی، استدعا کی کہ الیکشن کی تاریخ دے دی جائے ۔تاریخ دینا تو حالانکہ عدالت کا نہیں گورنر کا کام ہے مگر چونکہ سیاست اب عدالت میں ہو رہی ہے تو یہ کام بھی اسے ہی سر انجام دینا پڑ رہا ہے۔ اب تین فروری کو سماعت ہو گی اور ایک بار پھر سیاست دانوں کے فیصلے عدالت کرے گی۔ عدالت بتائے گی کہ عمران خان سیاست کرنے کے لیے اہل ہیں یا نا اہل، عدالت بتائے گی کہ 2023 کے انتخابات میں کون کون حصہ لے گا ، کون کون باہر بیٹھ کے تماشا دیکھے گا۔ سیاست دانوں نے اپنی داڑھی عدلیہ کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ بلکہ آج نہیں دی،زمانے سے دے رکھی ہے۔ سیاستدان ہی معزز ججوں کو فون کر کے بتاتے رہے کہ ان کے مخالفین کو کتنے سال کی سزا دینی ہے۔ اس مقصد کے لیے ماضی میں اپنے جج لگانے کی حکمت عملی بنائی جا تی رہی۔اپنے جج ہوں گے تومطلوبہ فیصلے کریں گے۔ جج اگر ایک فریق کی مرضی کے فیصلے نہیں دے گا تو اس کے خلاف مہم چلائی جائے گی ۔ اس کی کردار کشی کی جائے گی ، اسے دبائو میں لایا جائے گا، سیاست اب یہی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مارچ 2022 سے شاید ایک بھی فیصلہ سیاستدانوں ، پارلیمان، الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں نے نہ کیا ہو گاکہ جو عدالتوں تک نہ پہنچا۔ قاسم سوری نے رولنگ دی تو عدالت میں چیلنج ہو گئی۔عدالت سے فیصلہ آیا تو عمران خان کو گھر جانا پڑا۔ عمران خان نے مئی میں لانگ مارچ کا فیصلہ کیا تو عدالت میں چیلنج ہو گیا۔ عدالت نے مشروط اجازت دی تو بھی معاملہ عدالت تک ہی جا پہنچا۔ توہین عدالت کی باتیں ہوئیں ، عدالت نے بڑی مشکل سے پہلو بچایا۔ منحرف اراکین کے ووٹ کی بات ہوئی تو ایک بارپھر عدالت کو شریک کرنا پڑا۔ عدالت نے فیصلہ دیا تو منحرفین فارغ ہو گئے۔ پنجاب میں حمزہ حلف نہ اٹھا پاتے تھے ، عدالت نے وقت ، تاریخ اور مقام مقرر کیا تو حمزہ شہباز وزیر اعلی بنے۔ منحرفین فارغ ہوئے تو پنجاب میں ضمنی الیکشن کا اعلان ہوا۔ تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہوئی تو پرویز الٰہی پھر عدالتی مداخلت سے وزیر اعلی کا حلف اٹھانے کے قابل ہوئے۔ وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو دھڑا دھڑ قانون سازی شروع ہوئی انہی میں نیب ترامیم بھی شامل تھیں۔ نیب ترامیم بظاہر چند افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے تھیں ۔ حسب توقع انہیں چیلنج کر دیا گیا، معاملہ ایک بار پھر عدالت میں جا پہنچا جہاں یہ اب تک زیر سماعت ہے۔ اسی اثنامیں عمران خان نے دوبارہ لانگ مارچ کا منصوبہ بنایا۔اسے روکنے کے لیے مخالف فریق نے پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ لانگ مارچ عدالت کے ذریعے تو نہ روکا جا سکا مگر عمران خان پر حملہ ہو گیا۔ عمران خان بال بال بچے۔مگر کوئی ان کی ایف آئی آر درج کرنے والا نہ تھا۔ عمران خان صحت یاب ہوئے تو پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی کہانی شروع ہو گئی۔ اسمبلی کی تحلیل روکنے کے لیے گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا تو فریقین ایک بار پھر عدالت جا پہنچے۔ ایک فریق نے دوسرے کو برطرف کر دیا تھا۔ وزیر اعلی برطرف کیے جانے کا حکم ماننے سے انکاری تھے۔ بات پھر عدالت کے پاس جا پہنچی۔عدالت اعتمادکا ووٹ لینے کا حکم دینے ہی والی تھی کہ پہلے ہی اعتماد کا ووٹ لے لیا گیا۔ پھر اسمبلی تحلیل ہوئی مگر اب الیکشن کی تاریخ نہیں دی جا رہی ۔ تحریک انصاف انتخابات کی تاریخ لینے کے لیے ایک بار پھر عدالت میں ہے۔ معلوم نہیں عدالت سے کیا فیصلہ آتا ہے مگر اب عدالتوں کی حکم عدولی کا چلن بھی عام ہو گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالتیں اس کا برا بھی نہیں مانتیں ۔ اب لاہور ہائیکورٹ کا حکم نہ مانا گیا تو شاید بات سپریم کورٹ تک جائے۔ کچھ بھی ہو ، یہ مگر طے ہے کہ پاکستان کی سیاست اب عدالت میں ہی ہو رہی ہے۔ ایک فریق جائے یا دوسرا،جانا سب نے عدالت ہی ہوتا ہے۔ سیاستدانوں نے عدالتوں کو سیاسی فیصلہ گا ہ بنا لیا ہے۔اپنی داڑھی عدالتوں کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ جانے سیاست دان خود اپنے فیصلے کرنے کے قابل کب ہوں گے۔