کسی کتاب میںیہ سبق آموز حکایت پڑھی کہ ایک دفعہ کوئی مسافر اپنے سفر کے دوران، ایک ایسے مقام پر پہنچا جہاں سے سڑک دو مختلف راستے اختیار کررہی تھی۔ مسافر وہاں کھڑا سوچ رہا تھا کہ آخر کونسا راستہ اختیار کرے کہ اس کی نظر درخت پر بیٹھی ایک بلی پر پڑی۔ بلی نے پوچھا ’’کیوں پریشان کھڑے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’سمجھ نہیں آرہا کس طرف کو جائوں‘‘۔ ’’ تمہاری منزل کیا ہے؟‘‘ بلی نے پوچھا۔ مسافر نے جواب دیا ’’ معلوم نہیں‘‘۔ بلی نے منہ پھیرتے ہوئے کہا ’’جائو پھر جو مرضی راستہ اختیار کرلو۔‘‘ جب ہوش سنبھالا تو ملک میں مارشل لا کا نفاد دیکھا۔ 9/11 کے واقعہ کے بعد پاکستان کو "war on terror" میں امریکا کی بھرپور حمایت کے ساتھ ساتھ، اس کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتے پایا۔ اس چکر میں اپنے ہی ملک میں ، ہزاروں جانوں کو اس جنگ کی نذر ہوتے دیکھا۔ ڈکٹیٹر راج ختم ہوا، تو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کا دور دورہ ہوا۔ ڈرون حملہ اپنے عروج کو پہنچے اور یکِ بعد دیگرے کئی واقعات نے ملکی وقار کو ایسی ٹھیس پہنچائی جس کا آج تک ازالہ نہ ہو سکا۔ ایبٹ آباد میں رات کی تاریکی میں وارد ہوتے امریکی فوجی ، پاکستان کی خود مختاری کو ایسا زخم دے گئے ، کہ جس کا نہ کوئی مرہم ہے اور نہ کوئی دوا۔ لوگ آج بھی حیران ہیں کہ یہ سب کیسے اور کس طرح ہو گیا۔خیر! یہ حکومت بھی اپنا مقررہ وقت پورا کرکے چلی گئی اور مسلم لیگ نون نے اقتدار کو سنبھالا۔ خاندانی راج جاری و ساری تھا کہ ’’پاناماـ‘‘ آن ٹپکا۔ اور پھر نعرہ پاناما یوں بلند ہوا کہ نا اہلی کسی کا مقدر ہوئی، اور وہ ـ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے نوحہ کے ساتھ اپنے گھر کو روانہ ہوگیا۔ اگلے الیکشن میں احتساب کے نام پر نئی حکومت آئی۔ احتساب تو خیر کہیں نا کہیں کوئی نہ کوئی کرتا رہا، لیکن دیگر مسائل سمجھ سے باہر ہوتے چلے گئے۔ امریکہ کا دورہ کیا، تو ٹرمپ کے رویے نے اہلِ اقتدار کو فتح یاب ٹھہرایا۔ وطن واپسی پر جشن کا سماں تھا۔کچھ ہی دنوں کی دیر تھی کہ ہمسایہ ملک کشمیر پر قابض ہوگیا۔ ٹرمپ کا دور ختم ہوا۔ بائیڈن دور کے آتے ہی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا پروانہ جاری ہوا۔ اِدھر رات کی تاریکیوں میں 20 سالہ کوشش کے باوجود مقدر ہونے والی شکست کو سمیٹتے ہوئے، فوجیں افغانستا ن سے روانہ ہوئیں، تو دن دیہاڑے طالبان نے افغانستان کے بیشتر حصہ پر اپنا قلعہ مضبوط کرلیا۔ اور ہم یہاں بائیڈن کی کال کے منتظر بیٹھے..... بیٹھے ہی رہ گئے۔ لیکن کال نہ آئی۔ شاید موصوف "absolutely not" کا برا منا گئے۔ یہ وہ تین سے چار مختلف حکومتوں کے مختصر خاکے ہیں ۔ اس سے پیچھے بھی چلے جائیے، تو کہیں بھی آپ کو uniformity اور پالیسیوں کا تسلسل نہیںنظر آئے گی۔ اگلی حکومتیں پچھلی، اور پچھلی حکومتیں اُس سے پچھلی حکومتوں کو ہر چیز کا الزام دے کر، کچھ سرے سے نیا اور ان ہوناکرنے کی جستجو میں دیکھائی دیں گی۔ چلیں جمہوری حکومتیں ایک طرف، پاکستان میں جتنی بھی فوجی آمریتیں نافذ ہوئیں، ان میں بھی آپ کو کہیں یکسوئی نظر نہیں آئے گی۔ ایک ڈکٹیٹر پچھلے ڈکٹیٹر سے یکسر مختلف سوچ کا حامل پایاگیا۔ ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے، بندہ ایک ہی سوال کرتا ہے کہ ’’یہ عذاب رُت کے ملول بنچھی..... جائیں تو کدھر جائیں؟‘‘ چندروز قبل ایک ورک شاپ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ مختلف جامعات سے ایک یا دو نمائندہ طالب علم وہاں موجود تھے۔ اپنے ادارے کی طرف سے مجھے نمائندگی کاکہا گیا۔جانے کا کوئی خاص شوق تو نہ تھا ، لیکن جب اِس ورک شاپ کا دعوتی کارڈ بمعہ تفصیلات پڑھا ، تو دیکھا کہ گفتگو کے لیے جن لوگوںکو مدعو کیا گیا، ان میںصحافت سے جڑی بعض محترم اور معتبر شخصیات بھی شامل تھیں،جس کے سبب جانے کو فوراً تیار ہوگیا۔ یہ ساری روداد جو میں نے آغاز میں سنائی ہے، جوں کی توں وجاہت مسعود صاحب کے سامنے بھی سوال و جواب کے سیشن میں اسی سوال کے ساتھ رکھ چھوڑی ۔ ’’سر، یہ عذاب رت کے ملول بنچھی جائیں تو کدھر جائیں؟ـ‘‘ جواب ان کا مختصر مگر معنی خیز تھا۔ کہتے ہیں: ’’جو قومیں اپنے ملک کے معاشی استحکام کو، اپنے متمعِ نظر، اپنا نصب العین قرار دینے کی بجائے، دوسروں کے دروازہ پہ کشکول لے کے بیٹھی رہتی ہیں، کہ وہ ہمیں کچھ ٹکڑے دے دیں گے اور ہم وہ بھی اپنے گھر لے جائیں گے، ان قوموں کے ساتھ یہی ہوتا ہے کہ آٹھ دس برس اِس کام میں گزارے،اور آٹھ دس برس کسی اور کام میں ۔ لیکن آپ نو جوانوں کے پاس امید کی کرن باقی ہے ، کہ جیسے موتی لعل نہرو نے کہا تھا: "you people have advantage of time" آپ لوگوں کے پاس’’ وقت‘‘ ہے کہ آپ لوگ ملک کے آنے والے کل کو سنوار سکتے ہیں۔ ‘‘ کسی ادیب کی زبان سے سن رکھا تھا کہ لکھنے کے لیے ، لکھنے کی عادت سے زیادہ پڑھنے کی عادت کو اپناناضروری ہے۔ پڑھنے کی عادت ہی انسان کو لکھنے کے قابل بناتی ہے۔ مجھے نیا نیا لکھنے کا شوق ہوا، تو کالم نگاروں کو پڑھنا شروع کیا۔ کیوں کہ ادب میرا ذوق بھی ہے اور شوق بھی، تو کسی نے بتایا کہ فلاں فلاں کو پڑھا کرو، کیوں کہ ان کی تحریر میں حالات پر تبصرہ و تجزیہ کے ساتھ ادب کا چٹخارہ بھی پایا جاتا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن، شاید ہی ان صاحبانِ فکر و فن کا کوئی کالم ہو، جو میری نظروں سے نہ گزرا ہو۔ اور پھر شاید یہ تیشہِ نظر ہی کی ضرب تھی ، جو لگی تو ایک دو سیدھے جملے لکھنے آگئے۔ چاہے ایک قوم ہو یا اس قوم کا ایک فرد، اور اس فرد کی زندگی کا دائرہ کار، کسی ایک منزل کی نشاندہی لازم ہے، ورنہ وہ قومیں ، وہ انسان ، جنہیں اپنی منزل کا علم نہ ہو، بھٹکے ہوئے مسافروں کی طرح کبھی کسی گلی کا رُخ کرتے ہیں تو کبھی کسی کا۔ اور پھر اگرمنزل کا تعین کربھی لیں ، تو ہر مشکل مرحلہ کو عبور کرنے کی بجائے ڈنڈی مارنا شروع کردیتے ہیں ، کہ یہ چھوڑ دیں اور یہ کرلیں۔ حتی کہ ایسی حرکتوں کی بدولت جو پہلے سے موجود ہوتا ہے ، اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اور پھر وقت کا کیا ہے، وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ، کہ ہم تو خواب خرگوش میں مست ہیں۔ کسی ایسی ریاست کے خواب میں مدہوش ، جسے حاصل کرنے کے لیے ایک قدم بھی اٹھانے کو تیار نہیں، ہاں البتہ خواب بہت لطیف ہے، اور ہم اِس خواب و خیال کے نشے میں دُھت، ملولیت کا کمبل اوڑھے غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ کہ....... گر نہیں وصل تو یہ خوابِ رفاقت ہی ذرا دیر رہے۔