6جولائی کا حبس بھرا دن تھا جب پوری قوم ایک فیصلے کی منتظر ٹی وی سکرین پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ صبح 11بجے تک سہ پہر ساڑھے چار بجے تک کم و بیش دن کا پون حصہ معزز عدالت نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ‘ پوری قوم کو وقت کے دائروں سے الجھائے رکھا یہ بھی کسی سزا سے کیا کم تھا کہ پون دن وقت کا ایک قیمتی حصہ صرف ایک خبر کو سننے کے لیے بھاڑ میں جھونکا جائے۔ ادھر ٹی وی سکرین پر بیٹھے بھانت بھانت کے تجزیہ نگار‘ تجزیوں اور تبصروں کی پٹاریاں کھولے انتظار کی اس سولی پر ٹنگے ہوئے باقاعدہ ’’ہفنے‘‘ لگے ہوں۔ خیر فیصلہ تو وہ آیا جو آنا چاہئے تھا۔ حالات واقعات اور شواہد جس طرف اشارہ کر رہے تھے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو دس برس کی سزا۔ لندن فلیٹس کی ضبطی کا حکم اور 80 ملین پائونڈ جرمانہ ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7سات سال قید کی سزا اور 20 ملین پائونڈ جرمانہ۔ نواز شریف کی سزا غیر متوقع نہ تھی۔ جبکہ مریم نواز کو 7سال قید قدرے غیر متوقع ہے فیصلے سے پہلے بیشتر تجزیہ نگار یہی کہہ رہے تھے کہ مریم نواز کو جیل نہیں ہو گی الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہو سکتی ہیں یا پھر جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اب فیصلے کے مضمرات پر بات ہو رہی ہے بلا شبہ یہ ایک تاریخی اور بڑا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے بہت سے دوسرے فیصلے جڑے ہوئے ہیں۔ ن لیگ کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟ اس فیصلے کے بعد ن لیگ کے ورکروں اور ووٹروں کا مورال کتنا گرے گا۔ وہ اس کے شاکس سے بچ پائیں گے یا نہیں۔؟کیا نواز شریف کے جیل جانے سے (اگر وہ جیل گئے) ن لیگ میں کوئی خلا کوئی chaosپیدا ہو گا یا پھر یہ کہ سابق خادم اعلیٰ شہباز شریف اس خلاء کو پورا کر لیں گے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی نسبت اور اس کا سٹرکچر کچھ اس انداز میں ہوتا ہے کہ پوری سیاسی جماعت ایک شخصیت کے دم قدم سے کھڑی ہوتی ہے۔ اس شخصیت کو ہٹا دیں تو منظر خالی ہو جاتا ہے پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کے بعد آج تک سنبھل نہیں سکی۔ بینظیر کے دور میں یہ جو نعرہ لگا کرتا تھا چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر تو اس کی صداقت کا اندازہ ذرا اب لگا لیجیے کہ زنجیر ٹوٹی تو وہی پیپلز پارٹی سکڑتی ہوئی سندھ تک محدود ہو گئی۔ ن لیگ کا چہرہ بھی نواز شریف ہیں اسی لیے ان کی الیکشن مہم میں غیر حاضری سے ابھی تک ن لیگ کی انتخابی سرگرمیوں میں وہ سپارک پیدا نہیں ہو سکا۔ اگرچہ کہ ان کے برادر خورد اپنے طوفانی اسٹائل کے دوروں جوشیلی تقریروں بہترین ترنم اور غیر متوقع گلوکاری کے مظاہروں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جس کا تازہ ترین مظاہرہ وہ ’’کرانچی‘‘ میں کرکے آئے ہیں جہاں انہیں لینے کے دینے پڑ گئے۔ سو نواز شریف ن لیگ کا ایک چہرہ ہیں۔ قومی منظر نامے میں دیکھیں تو شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کو کامیابی سے ری پلیس کرتے دکھائی نہیں دیتے کیونکہ شہباز شریف کا امیج پنجاب کے ساتھ جڑا ہے۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں پنجاب کے دائرے میں محدود رہی ہیں۔ قومی سطح کے رہنما کی کشش ان میں فی الحال موجود نہیں یہ بھی ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے کہ پوری سیاسی جماعت ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہے اور اس کے نہ ہونے سے برس ہابرس میں بنی ہوئی سیاسی جماعتیں بکھرنے لگتی ہیں۔ سیاسی جماعت صرف اس جماعت کا چیئرمین‘ صدر یا سربراہ تو نہیں ہوتی۔ اس میں سینکڑوں بے نام کارکن ہوتے ہیں جو گمنام سپاہیوں کی طرح اس سیاسی جماعت کے پنپنے کے لیے اپنا خون جگر دیتے ہیں۔ اپنا وقت اپنا پیسہ اپنا آپ سیاسی جماعت پر لٹاتے ہیں پھر کہیں جا کر ان کے قائدین کے جلسے سجتے ہیں۔ ان کی سیاسی ریلیاں پھبتی ہیں ان کی تقریروں پر نعرے لگتے ہیں اور ان کے راستوں میں بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں۔ ن لیگ کے ورکر سے مجھے ہمدردی ہے۔ میرے نزدیک نواز شریف کا جیل جانا المیہ نہیں ن لیگ کے ورکر کے خوابوں کا ٹوٹنا زیادہ بڑا المیہ ہے۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں نواز شریف کو نواز شریف بنانے میں صرف کر دیں۔ ان کے لیے یہ سب تکلیف دہ ہے۔ اپنے قائد کا یہ زوال۔ خواہش اور ہوس کا یہ حال اور شکستہ خوابوں‘ جھوٹے وعدوں کا یہ ملال۔ پاکستان میں سیاسی قائدین تو اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے سو گر جانتے ہیں بیرون ملک اثاثے ٹیکس ہیون ملکوںمیں بنک بیلنس لندن دبئی کی جائیدادیں اور فلیٹس اس لیے جلا وطنی ان پر کبھی بھاری نہیں پڑتی۔ اور یہاں ان کا وفادار کارکن بیچارہ پروین شاکر کے الفاظ میں بس یہی کہتا رہ جاتا ہے: تم نے تو تھک کے دشت میں ڈیرے جما لیے تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا! اور سچ تو یہ ہے کہ سیاسی کارکنوں اور سیاسی وفاداروں کو یہ جاننے میں ایک عمر لگ جاتی ہے کہ جس بت کو وہ تمام عمر پوجتے رہے وہ صرف اپنی خواہش اور اپنے مفاد کا اسیر تھا۔ نواز شریف کی صورت زوال کی ایک داستان ہمارے سامنے ہے سیاسی سفرمیں ایسا خوش نصیب بھی کوئی اور ایسا بدنصیب بھی کوئی نہیں۔ یعنی تین بار وزارت عظمیٰ کا تخت جس کو ملا ہو اور پھر تینوں بار ہی یہ تخت و تاج جس طرح سے چھینا گیا۔ اس کا جرم ہے کہ تین بار قدرت نے اسے کسی مسیحا کی منتظر مسائل میں اٹی قوم کا وزیر اعظم بنایا قدرت نے بار بار موقع دیا 40فیصد سے زائد خط غربت کے نیچے سانس لینے والوں پر مشتمل پاکستانی قوم کیلئے کچھ کر جائے لیکن حرص و ہوس کی آندھی میں اسے صرف اپنی ذات‘ اپنا مفاد اپنی بیٹی اپنے بیٹے نظر آتے رہے۔ اس کے وعدے جھوٹے رہے۔دعوے غلط نکلے۔ جو خواب اس نے لوگوں کو دکھائے آج ان کی کرچیاں اس کے قدموں تلے بچھی ہیں۔ منیر نیازی کہاں یاد آتا ہے: مری ہی خواہشیں باعث ہیں میرے غم کا منیرؔ عذاب مجھ پر نہیں حرفِ مدعا کے سِوا!