کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ میں دو مساجد پہ ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں پچاس کے قریب مسلمان شہید اوربیس کے قریب زخمی ہوئے۔ یہ حملے مسجد النور اور لن ووڈ مسجد میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کئے گئے۔حملہ آوروںنے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ کسی نمازی کو زندہ نہ چھوڑیں ۔مرکزی ملزم برینٹن ٹیرنٹ جو گرفتار ہوچکا ہے، خود اس دہشت گردانہ واقعہ کی ویڈیو بناتا اور فیس بک پہ اپ لوڈ کرتا رہا۔نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیکندا آردرن نے اس وحشیانہ کاروائی کو بڑی فیاضی کا ثبوت دیتے ہوئے دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا ہے۔ دہشت گردی کی اس بہیمانہ کارروائی کو جس میں معصوم نمازی شہید ہوئے کسی وقتی اشتعال یا کسی مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے عادی مجرم کی انفرادی حرکت قرار دینا اس لئے بھی ممکن نہیں کہ یہ ایک سوچی سمجھی اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی واردات تھی جس میں نہ صرف جدید ہتھیار استعمال ہوئے بلکہ دھماکہ خیز مواد بھی نصب کیا گیا جس کی وجہ سے جانی نقصان اس سے بہت زیادہ ہوسکتا ہے جتنا کہ بتایا جارہا ہے۔دہشت گردی کی ایسی خوفناک واردات کا مجرم اگر کوئی مسلمان ہوتا تو اب تک دنیا بھر کے میڈیا کا گلا اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دینے اور اسلامی دہشت گردی کے خطرناک رجحان پہ چیخ چیخ کر بیٹھ چکا ہوتا جس سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہے اور جس کے سد باب کے لئے مغرب کی ہر طاقت کو پورا حق ہے کہ وہ جس ملک پہ چاہے چڑھائی کرے لیکن حسن اتفاق سے دہشت گرد اس بار مسلمان نہیں ہے ا س لئے اس بار بات مذمتوں پہ ختم ہونے کا امکان موجود ہے جو تواتر سے جاری ہیں۔نیوزی لینڈ کی مستعد پولیس اپنا کام کررہی ہے ، گرفتاریاں جاری ہیں،سزائیں بھی ہوجائیں گی لیکن یہ ملک کا اندرونی معاملہ ہی رہے گا۔ عالمی رہنمائوں نے اب تک دہشت گردی کی مذمت ضرور کی ہے لیکن اسے کسی مذہب سے جوڑنے سے محتاط قسم کا پرہیز کیا ہے ۔سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا نے متاثرین سے روایتی قسم کی یکجہتی کا اظہار کیا۔ ملائشیا نے اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا۔ البتہ ترکی کے صدر طیب اردوان کے ترجمان ابراہیم کالن نے اسے کھلے الفاظ میں بدترین نسلی فاشزم اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا شاخسانہ قرار دیا اور دنیا کو اسلاموفوبیا کے خلاف آواز بلند کرنے کا مشورہ دیا جو یقینا اس نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیا۔افغانستان نے اس موقع پہ اپنے بدترین نسلی تعصب کا ثبوت دیا اور وقوعہ میں جاں بحق ہونے والے تین افغانیوں کی شہادت کی مذمت کو کافی سمجھا۔باقی مسلمان غالبا انسان ہی نہیں تھے۔عمران خان نے البتہ ہمیشہ کی طرح اس واقعہ کی وجوہات نائن الیون کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ چلائی گئی مغرب کی نفرت انگیز مہم میں بجا طور پہ تلاش کیں اور ایک بار پھر اپنی فکری بالیدگی کا ثبوت دیاالبتہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس دیرینہ موقف کا اعادہ کرنا ضروری سمجھا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ فقرہ بجائے خو د بحث و تحقیق طلب ہے۔اسے یہیں چھوڑتے ہوئے ،بہتر ہوگا کہ ہم اس واردات کے مرکزی ملزم بیرینٹن ٹیرنٹ کا موقف بھی سن لیں کہ اس نے یہ وحشیانہ کارروائی کیوں انجام دی جس نے اس واردات کو انجام دینے سے پہلے ایک طویل پیغام انٹرنیٹ پہ چھوڑا۔اس پیغام میں اس نے دہشت گردی کی اس واردات کی ایک ہی وجہ بیان کی ہے جس سے دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا کے بیانیے کی تردید ہوتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے یہ واردات اس لئے کی کہ وہ یورپ میں مسلمانوں کی آمد سے خائف ہے اور نہیں چاہتا کہ ایک بار پھر یورپ مسلمانوں کی تہذیبی یلغار کے سامنے ڈھیر ہوکر اسے اپنا زیر نگین بنالے۔ بیرینٹن ٹیرنٹ جس کا تعلق آسٹریلیا کے ایک غریب خاندان سے ہے خود کو بس ایک عام سا سفید فام کہلوانے پہ مصر ہے۔اس کا مطلب واضح ہے۔وہ اپنی اس نفرت انگیز کارروائی کو ایک عام سفید فام کی عمومی ذہنیت قرار دینا چاہتا ہے۔ اس اعتبار سے وہ یورپ کی اسلامائزیشن کے خوف کو ہر یورپین کا خوف سمجھتا ہے۔ اسے اس کارروائی کے لئے جس کی تیاری وہ کئی ماہ سے کررہا تھا،نیوزی لینڈ کا انتخاب نہیں کرنا تھا لیکن یو رپ بھر کی توجہ سمیٹنے کے لئے وہ ایک بہترین جائے واردات تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ واردات اس نے دنیا کی توجہ اس جارحیت کی طرف مبذول کرنے کے لئے کیا جو ہماری یورپی تہذیب پہ ان مسلمانوں کی طرف سے جاری ہے جو پتا نہیں کہاں کہاں سے ہجرت کرکے یورپ آجاتے ہیں۔میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری زمین کبھی ان کی نہیں ہوسکتی اور جب تک ایک سفید فام بھی زندہ ہے(جوکہ رہے گا) وہ ہمیں کبھی فتح کرسکیں گے نہ ہمارے لوگوں کو بے دخل کرسکیں گے۔اس کے طویل بیان کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اسلامی تاریخ بالخصوص اسپین پہ مسلمانوں کے طویل اقتدار کا علم ہی نہیں،قلق بھی ہے۔آپ اسے ایک دہشت گرد کی ویسی ہی نظریاتی بڑ سمجھیں جیسا کہ القاعدہ اور داعش اپنی کارروائیوں کے لئے جواز کے طور پہ پیش کرتے ہیں لیکن میرے سامنے ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان کا دوسال پرانا وہ بیان ہے جو انہوں نے یورپ کی اسلامائزیشن کے خوف سے دیا تھا۔ظاہر ہے وہ کوئی دہشت گرد نہیں یورپ کے اہم ترین ملک کے ذمہ دار سربراہ ہیں۔ان کا کہنا تھا اسلام، مسلمان مہاجرین کی صورت میں یورپ کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔ وہ یورپی لیڈر، جو یورپ میں مسلمان مہاجروں کی آبادکاری کے حق میں ہیں ، دراصل ایک مخلوط قسم کا مسلم یورپ بنانا چاہ رہے ہیں۔ مسلم مہاجرین کو اگر نہ روکا گیا تو وہ یورپ کی ثقافتی شناخت کو تبدیل کردیں گے۔اس سے قبل صدر ٹرمپ برطانیہ کو مسلم تارکین وطن کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ کا کلچران کی وجہ سے خطرے میں ہے ۔ہالینڈ کا ملعون گیرٹ ویلڈر جس نے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کیا تھا،بارہا اپنی نفرت انگیز تقریروں میں مسلمان مہاجرین سے یورپی تہذیب کو لاحق خطرے کا اظہار کرچکا ہے۔ یہی نہیں PEW انسٹی ٹیوٹ کی ایک تحقیق کے مطابق عالمی مذہبی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے اور 2035ء تک پیدا ہونے والے مسلم بچوں کی تعداد عیسائی بچوں سے بڑھ جائے گی جبکہ ملحدین یا لادین افراد کی شرح پیدائش انتہائی کم ہوجائے گی۔2010 ء سے 2015ء کے دوران مسلمانوں کی شرح پیدائش چوبیس فیصد سے بڑھ کر اکتیس فیصد تک ہوگئی ہے۔ایسے میں مسلم نوجوانوں کی لاکھوں کی تعداد میں یورپ کی طرف ہجرت نے اس مسئلے کو اور بھی سنگین کردیا ہے ۔ اصل تشویش یہ ہے کہ یہ درماندہ ،لٹے پٹے مسلمان یورپ جان و مال کے خوف سے یورپ آتو جاتے ہیں لیکن اپنی مذہبی روایات اور تشخص سے دستبردار نہیں ہوتے بلکہ مزید شدت سے ان پہ عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں برینٹن ٹیرنٹ کے عذر گناہ کو دیوانے کی بڑ سمجھنا خوش فہمی ہی ہوسکتی ہے۔