ایک زمانے میں جناب توصیف تبسم نے بھارت کے نامور شاعر عرفان صدیقی کے کلیات ’’دریا‘‘کے نام سے شائع کیے۔ میں نے اس دریا سے موج نکال لی۔ یعنی ان کا ایک انتخاب کلام ’’موج‘‘ کے نام سے کر دیا جسے بہت پذیرائی ملی۔ ایک شعر تب بہت اچھا لگا: ؎ کاٹ دی اس نے تو زنجیر ہی دلداری کی اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی عرفان صدیقی کا تذکرہ اہم اس لئے ہے کہ انہوں نے پاکستان کی ایک نسل کو بہت متاثر کیا۔ انہی کے آہنگ اور رنگ میں نوجوانوں نے غزلیں کہیں کہ اس میں ایک تازگی اور انفرادیت تھی۔ اس میں مقبولیت کی بجائے قبولیت والا معاملہ تھا۔ آج میرے سامنے ایک مکمل دستاویز آ گئی ہے جسے عزیز نبیل اور آصف اعظمی نے مرتب کیا ہیں۔’’عرفان صدیقی حیات خدمات اور شعری کائنات‘‘ ظاہر ہے میں ایک کالم میں اس کائنات شعر کا احاطہ تو نہیں کر سکتا مگر نظریہ فن پر بات ضرور ہو گی۔ دو باتیں بہت اہم ہیں ایک تو ان کے ہاں بھارت میں رہ جانے کا قلق ہے اور دوسرا ان کا نظریہ فن ہے ان کا ایک شعر برمحل ہو گا: غزل تو خیر ہر اہل سخن کا جادہ ہے مگر یہ نوک پلک میرے فن کا جادہ ہے یقینا ان کے ہاں زبان دانی کے حوالے سے ایک رکھ رکھائو اور مہارت موجود ہے اور وہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ وہ کرافٹ پر زور دیتے ہیں یہ شعر کی پوشاک ہے جسے خوبصورت ہونا چاہیے یہ انگوٹھی میں نگینہ جڑنے والی بات ہے ارو یہ مرصع ساز کا کام ہے۔ مگر یہ مزاج کی بات ہے ایک گروپ دوسرا بھی ہے جو اس مینا کاری کو ثانوی حیثیت دیتا ہے‘مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آ گیا: کمال نغمہ گری میں ہے فن بھی اپنی جگہ مگر یہ لوگ کسی درد نے سریلے کیے عرفان صدیقی نے بہت اعلیٰ اور پائے کی شاعری کی ہے اور اپنے عہد کو متاثر کیا ہے۔ ان کے ہاں سرحد ایک رکاوٹ ہے۔ ان پر تقسیم کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ یقینا ہندوئوں کے ناروا سلوک اور تعصب نے ان کے اندر ہیجان پیدا کیا اور بعض جگہ تو شکوہ سنج بھی نظر آتے ہیں کہ انہیں کس کے آسرے پر ان کے اپنے چھوڑ کر چلے گئے۔ مگر وہاں زبان بندی ایسی کہ بات پر زبان کٹتی ہے۔ بھارت میں رہ جانے والوں کے لیے سرحد کی لکیر یقینا غلامی کی زنجیر بن گئی اور ہمارے لیے یعنی پاکستانیوں کے لیے آزادی کی لکیر۔ اے کاش ہم اس کی قدر کرتے ان سے پوچھو جو وہاں رہ گئے اور ہندو مکار انہیں کسی صورت میں آزادی سے سانس نہیں لینے دیتا۔ آپ اس احساس کے زیر اثر عرفان صدیقی کا شعر دیکھیں: سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا سوچیے آدمی اچھا کہ پرندا اچھا اسی باعث پرندا ان کے اندر کی آرزو ہے جو استعارا بن گئی ہے: پرندوں نے کبھی رستہ نہیں روکا پرندوں کا خدا دنیا کو چڑیا گھر بنا دیتا تو اچھا تھا عرفان صدیقی کے ہاں زبان و بیان کی خوبیاں اپنی جگہ مگر ایک بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ ہے کہ وہ اضافت بہت ہی کم استعمال کرتے ہیں۔ داغ کے ہاں بھی یہ چیز موجود ہے۔ داغ نے اپنا ایک رنگ برجستہ سا دکھایا شہزاد احمد بھی اضافت کے استعمال سے بچتے تھے میں سمجھتا ہوں کہ اضافت کے استعمال سے شعر میں تہہ داری آتی ہے۔ اختصار و اعجاز پیدا ہوتا ہے۔ یہ بھی اسلوب اور انداز کی بات ہے شعر تو مگر عرفان صاحب نے خوب کہے: رات اور اتنی مسلسل کسی دیوانے نے صبح روکی ہوئی ہے چاند چرایا ہوا ہے میرا خیال ہے غالب و فیض جیسے لوگ کلاسیکل روایت سے جڑے ہوئے تھے جس کی اساس فارسی شاعری ہے۔ اس کے باوجود اس اثر سے نکل کر اچھا شعر کہنا بھی کچھ کم نہیں۔ عرفان صاحب کا یہ شعر دیکھیے: مری شاعری مری عاشقی ہے سمندروں کی شناوری وہی ہمکنار اسے چاہنا وہی بے کراں اسے دیکھنا اب اضافت کا ایک اپنا مزہ ہے: چشم نمناک لئے سینۂ ضد چاک سیے دور تک ہم بھی گئے اپنے خریدار کے ساتھ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ عرفان صدیقی کی کائنات مجھے خود عزیز نبیل نے اس وقت عنایت کی جب میں قطر مشاعرہ پڑھنے گیا تھا اور آصف شفیع اس کے ہمراہ تھا۔ خود عزیز نبیل نے اس کتاب کے آغاز میں عرفان صدیقی کو خراج تحسین شعر کی صورت پیش کیا ہے: جانے کتنے سورجوں کا فیض حاصل ہے اسے اس مکمل روشنی سے جو ملا روشن ہوا عرفان صدیقی نے ہندوئوں کے مظالم اور قتل و غارت کی بات بھی کچھ اپنے انداز میں کی ہے ۔ حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا تونے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا بہرحال اللہ کی اپنی حکمتیں ہیں‘ وہی جانتا ہے۔ ایک بات دل میں آتی ہے کہ پاکستان کی تخلیق ایسا معجزہ تھا جس نے ہمیں ہندوئوں کی خباثت سے بچا لیا اس وقت دیکھیں کہ بی جے پی وہاں سے مسلمانوں کو دیس نکالا دینا چاہتی ہے وہ مسلمانوں سے موسوم شہروں اور سڑکوں کے نام تک بدل رہے ہیں۔ کشمیر میں ان کی بربریت دیکھنے والی ہے۔ چلیے بات لمبی ہو جائے گی۔ آخر میں عرفان صدیقی کے چند خوبصورت اشعار: بارشِ سنگ ہی میرا مقدر ہے تو پھر اے خدا شاخِ ثمردار بنا دے مجھ کو باڑھ میں بہتی ہوئی شاخ کا مصرف کیا ہے ڈوبتے ہاتھ کی پتوار بنا دے مجھ کو مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا خیال ڈھونڈھتا رہتا استعارا کوئی