کیا عربی کو بطور لازمی ز بان پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نافذ کیا جانا چاہیے؟ اگر میرا تعلق مذہبی جماعت سے ہے تو اس سوال کے لیے میرا جواب ہاں میں ہوگا۔ اگر میرا تعلق علاقائی زبانوںکو فروغ دینے والے گروہ سے ہے تو یقیناً مجھے اس سوال سے اختلاف ہوگا۔اور اگر میں معاملات کو مغرب کی ریفارمیشن تحریک کی عینک سے دیکھنے کی عادی ہوں تو یہ سوال طبیعت پر گراں گزرے گا۔یہ تمام باتیں اپنی اپنی جگہ درست بھی ہو سکتی ہیں اور نہیں بھی۔ کسی کی ذاتی را ئے کی اہمیت تحقیق کے ذریعے اسے درست ثابت کرنے پر منحصر ہے۔ انگریزی میں اسے Impirical evidence یعنی تجرباتی گواہی کہا جاتا ہے۔ سائنس کی پوری بنیاد اسی ستون پر اٹھائی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس ایسے تجرباتی شواہد ہیں جن سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ تمام خیالات حقیقت پر مبنی ہیں۔؟ سوال کا جواب اگر نفی میںہے تو پھر ان تمام آراء کو ذاتی سوچ سے آگے نہیں دیکھا جا سکتا۔ سینٹ میں جب عربی کو اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں نافذ کرنے کابل پیش کیاگیا تو پیپلز پارٹی کے رہنما سنیٹر رضا ربانی نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ عربی کے نفاذ سے ا سلام کو سیاسی اہداف کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا مقصود ہے ۔ اس توجیہہ کے پیچھے شائد عرب ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات سے جڑا وہ ماضی ہے جب پاکستان کو دو اسلامی ممالک ایران اور سعودی عرب کی پراکسی بنا کر فرقہ واریت کی آگ میں جھونکا گیا۔ اس توجیہہ کے تناظر میں شائد روس اور افغانستان کی جنگ بھی ہو ، جب پاکستان اور سعودیہ کی مدد سے جہاد کو سرد جنگ میں بطور موثر ہتھیار استعمال کیا گیا۔ پھر دہشت گردی او ر مذہبی انتہا پسندی نے کس طرح پاکستان کو داغ دار اور زخم آلود کیا، آج سب ریکارڈ پر ہے ۔ عربی کو بطور لازمی زبان نافذ نہ کرنے کی دوسری وجہ رضا ربانی نے یہ دی کہ ہمیں اپنی قومی زبانوں کے فروغ پر کام کرنا چاہیے تاکہ مقامی ثقافتوں کو ترقی ملی۔ یہاں وہ شائدیہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ زبان ثقافت کے نفاذ کا اہم ذریعہ ہے ۔ اس بات میں شک بھی نہیں۔ انگریزی زبان کے ساتھ اس کا پورا تمدن آج ہماری زندگیوں میں شامل ہے۔ بلکہ ہندوستان میں ایک مہم کے تحت انگریزی کے ساتھ جڑے تمدنی اور فکری احساس برتری کو مٹانے کی کوشش جاری ہے۔ ہم بھی بہت حد تک انگریزی کی خود فریبی سے باہر نکل آئے ہیں۔ اس تناظر میں اگر رضا ربانی کی بات کا جائزہ لیا جائے تو پیپلز پارٹی کی مخالفت میں وزن دکھائی نہیں دیتا۔ اگر پارٹی کو پاکستانی ثقافت کے تحفظ کا واقعی خیال ہوتا تووہ سپریم کورٹ کے اردو کے نفاذ کے حوالے سے فیصلے پر عمل درآمد کی کوشش کرتی۔ پھر یہ فیصلہ تو اس آئین کے تحت کیا گیا جس کی تخلیق کے مرکزی کردار ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس عربی کو بطور لازمی زبان تعلیمی اداروں میں نافذ کرنے کی کوئی دلیل ہے؟ بنی اسرائیل قرآن کا اہم موضوع ہے۔ ان کی چال بازیوں اور در اندازی کا ذکر بار بار ملتا ہے۔ بے صبری کا یہ عالم تھا کہ اللہ کو ماننے کے لیے اسے دیکھنے کی شرط رکھ دی، نبیوں کو قتل کرتے کہ یہ حق کو کیا جانیں، اور اگر کسی نبی پر ایمان لے بھی آتے جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو انکے احکامات کو اتنا لتاڑ تے کہ اصلی حکم مسخ ہو کرکچھ کا کچھ بن جاتا۔ جیسا کہ گائے ذبح کرنے کے معاملے میں ہوا۔ انکی ہر سرکشی کے جواب میں اللہ تعالی انہیں تورات کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتے ۔ سوال یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی سرکشی کا محرک کیا تھا ؟ قرآن کی رو سے ایسا اس لیے ہوا کیونکہ وہ اللہ کو رب ماننے کے بجائے اکابرین مذہب کو اپنا رب مانتے۔ یہ اکابرین جس چیز کو حرام قرار دیتے بنی اسرائیل اسے اپنے اوپر حرام کر لیتے اور جسے جائز قرار دیتے قوم یعقوب علیہ السلام کے لیے وہ حلال ہو جاتی۔یہ اکابرین مذہب کوئی جاد و گر نہیں تھے کہ سحر کے ذریعے لوگوں کو اپنی بات کی طرف راغب کرتے۔ انہوںنے صرف ایک کام کیا۔ اپنی قوم کو تورات براہ راست عبرانی زبان میں سمجھنے کی بجائے تفاسیر کے ذریعے سمجھنے کی طرف مائل کیا۔ جب زبان سے رابطہ منقطع ہوا تو تورات سے بھی رابطہ کمزور پڑ گیا۔ بات اہم ہوگئی ان اکابرین کی جنہوں نے پہلے تفاسیر پھر اصل نص میں تحریف کی ۔ رفتہ رفتہ اس تحریف کے ذریعے بنی اسرائیل نے مذہب کو سیاسی مقاصدکے حصول کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کر دیا۔ عربی زبان پر ہماری گرفت کیوں مضبوط ہونی چاہیے اور اسے کیوںتعلیمی سطح پر نافذ ہونا چاہیے؟ اس کا جواب قرآ ن سے حاصل کرتے ہیں۔ سورہ بقرہ آیت 63 میںاللہ تعالی فرماتے ہیں ـ" ۔۔جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اسکو زور سے پکڑے رہواور جو اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو ۔۔ـ" اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت103 میں ہیـ" اور تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں مت پڑو۔۔۔ـ" تمام مکاتب فکر کے علماء کا اتفاق ہے کہ اللہ کی رسی سے یہاں مراد داسلام ہے جس کی اساس قرآن ہے جو عربی میں نازل ہوا ہے۔ پھر زبانوں کے اختلاف کو اللہ نے سورہ روم کی آیت 22 میںاپنی نشانی قرار دیا ہے۔ آج اور آج سے پہلے اگر عام مسلمان سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوے ہیں تو بوجہ عربی نہیں، بلکہ قرآن کے ان غلط تراجم اورحد سے بڑھی تفاسیر کے جن پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد عربی زبان سے نا واقفیت کی بنا منسلک ہوئی اور ہے بھی۔ عربی زبان کے نفاذ سے غلط تاویلات سے پیدا ہونے والے فتووں اور فرقہ واریت کے تصادم سے بچا جا سکتا ہے۔