21 اگست کو عظیم حریت پسند رہنما اور عالمی شہرت یافتہ خطیب سید عطا اللہ شاہ بخاری کا یوم وفات منایا گیا ۔ملتان اور ملک کے دیگر شہروں میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔ مولانا کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے انگریز سامراج کیخلاف طویل جدوجہد کی اور اس سلسلے میں انہوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر کیا ۔انگریز کیخلاف جدوجہد میں ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ۔ اس لیے یہ مقولہ مشہور ہوا کہ ’’ شاہ جی کی زندگی ریل میں گزری یا جیل میں ‘‘ ۔ میرا موضوع عطا اللہ شاہ بخاری اور خواجہ فریدؒ ہے۔ عطا اللہ شاہ بخاری نے خواجہ فرید کی شان میں منقبت لکھی جس کے بہت سے اشعار ہیں ، دو شعر دیکھئے : گلخن عشق چشتیاں بہ طیبد شعلہ اش خواجہ غلام فرید سرمہ چشم شد بخاری را خاکپائے غلامِ خواجہ فرید اس پوری نظم کا مفہوم اسطرح ہے ’’ سلسلہ چشت کے بزرگوں کے عشق کی بھٹی جب گرم ہوئی تو خواجہ فرید بنے ۔ اسے کیا معلوم کہ خواجہ فرید کیا ہے جس نے شربتِ عشق کا ایک گھونٹ بھی نہ پیا ہو۔ میری فکر کا پنکھی اس وقت اپنے آشیانے سے اڑا جب اس نے خواجہ فرید کے نالے سنے ۔ خواجہ فرید عاشقوں کے رہبر اور توحید کے پروانے ہیں ۔ خواجہ فرید ذاتِ حق میں ایسے ہیں جیسے ذاتِ حق شہ رگ کے قریب ہے ۔ خواجہ فرید کو وہی سمجھتا ہے جس نے عشق کا ذائقہ چکھا ہو ۔ بخاری کی آنکھوں کا سرمہ بنی خواجہ فرید کے غلام کی خاک پا ۔عطا اللہ شاہ بخاری کے دل سے حسرت نہ گئی کہ اسے خواجہ فرید کی نگاہ نصیب نہ ہوئی۔ بلاشبہخطابت کے بے تاج بادشاہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری ایک شخص نہیں ایک عہد کا نام ہے ، وہ قیام پاکستان کے پہلے مخالف تھے ، پھر حامی ہو گئے ، مخالفت کی وہ دلیل دیتے اور کہتے کہ ہندوستان نہیں مسلمان بٹ رہا ہے ، پاکستان بن گیا تو وہ حمایت کی دلیل دیتے کہ اب پاکستان بن گیا ہے اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری 1891ء کو پٹنہ میں پیدا ہوئے ۔ پھر تعلیم کی خاطر امرتسر چلے گئے ۔1915ء میں پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کے دست پر بیعت ہوئے ۔ پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کی وفات کے بعد مولانا عبدالقادر رائے پوری کے دست پر بیعت ہوئے ۔1947ء میں وہ امرتسر سے لاہور آ گئے ۔ چار مہینے وہاں قیام کیا پھر خان گڑھ آ گئے اور وہاں نواب زادہ نصراللہ خان کے پاس رہ گئے ، خان گڑھ سے آپ ملتان آ گئے اور باقی ساری زندگی ملتان گزار دی۔21اگست 1961ء کو آپ اللہ کو پیارے ہو گئے اور ملتان میں آپ کی تدفین ہوئی۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا آبائی وطن موضع ناگڑیال ضلع گجرات پنجاب (پاکستان) تھا ۔ لیکن آپ کے والد مولوی ضیاء الدین احمد نے بسلسلہ تبلیغ پٹنہ میں سکونت اختیار کر لی تھی ۔ شاہ صاحب زمانہ طالب علمی ہی میں سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے لگے تھے لیکن آپ کی سیاسی زندگی کی ابتداء 1918ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کے ایک مشترکہ جلسہ سے ہوئی جو تحریک خلافت کی حمایت میںامرتسر میں منعقد ہوا تھا ۔ سیاسی زندگی بھر پورانداز میں گزاری اور ہندوستان کے تمام علاقوں کے دورے کئے ۔ اپنے زمانے کے معروف ترین مقرر تھے اور لوگ ان کی تقریریں سننے کے لئے دور دور سے آتے تھے ۔ سیاست میں ’’امیر شریعت اور شاہ جی‘‘ کے نام سے معروف تھے ۔ آپ نے تحریک آزادی کیلئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور مجموعی طور پر 18سال جیلوں میں رہے۔1929ء میں اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر مجلس احرار اسلام کے نام سے ایک علیحدہ سیاسی جماعت کی بنیادر کھی ۔ اس پلیٹ فارم سے تا حیات وابستہ رہے ۔قدرت نے آپ کو خطابت کا بے پناہ ملکہ دیا تھا ۔ اس فن میںآپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اُردو ، فارسی کے ہزاروں اشعار ازبر تھے ۔ خود بھی شاعر تھے اور ندیمؔتخلص کرتے تھے۔ ان کی زیادہ تر شاعری فارسی میں تھی ۔ سواطع الالہام کے نام سے آپ کا مجموعہ کلام شائع ہو چکا ہے ۔ کانوں میں گونجتے ہیں بخاری کے زمزمے بلبل چہک رہا ہے ریاض رسول میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا پورے ہندوستان اور پاکستان میں نام ہے ۔اصل وطن پنجاب تھا ان کی ماں بولی پنجابی تھی ، پنجاب کے کردار سے ایسے کھٹے ہوئے کہ ملتان آ گئے اور تا حیات وسیب کی دھرتی سے ہمیشہ محبت فرمائی۔ پنجاب کے بارے میں ان کی فارسی نظم ان کی کتاب ’’ساطعہ‘‘ کے صفحہ نمبر13پر موجود ہے ۔ نظم طویل ہے اور اس میں پنجاب کے کردار پر سخت ترین تنقید کی گئی ہے ۔نظم کے نیچے انہوں نے ایک نوٹ لکھا جس میں شاہ صاحب نے فرمایا کہ پنجاب نے جو جو مذہبی اور سیاسی طوفان اٹھائے اس سے یہ دھرتی دوزخ کی طرح ہو گئی ہے ۔ چاہے یہاں کچھ لوگ اچھے بھی پیدا ہوئے ہیں پر اکثریتی لوگوں میں بد سے بد تر تحریریکیں چلائیں ، پنجاب والے فرنگیوں کے مددگار بنے ۔ مرزایت اور چکڑالویت بھی یہاں سے ہی اُٹھی ۔ اسی پنجاب کی وجہ سے تحریک آزادی برباد ہوئی ہے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو ویسے تو سارے وسیب سے محبت تھی ،مگر خان پور سے آپ خصوصی محبت فرماتے تھے ، نسبت کی وجہ انگریزوں کے خلاف تحریک ریشمی رومال کے حوالے سے خان پور کا تحریک آزادی کا مرکز بننا اور تحریک آزادی کے حوالے سے مولانا عبیداللہ سندھی کی خدمات ہیں۔ میاں انیس دین پوری لکھتے ہیں کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری دین پور تشریف لاتے اور نہایت عقیدت و محبت کا اظہار فرماتے اور ہمارے والد قبلہ مولانا عبدالہادی دین پوریؒ شاہ صاحب کا بہت زیادہ احترام فرماتے۔سرائیکی خطیب مولانا لقمان علی پوری بتاتے تھے کہ شاہ صاحب کے ساتھ ہم غازی پور سے دین پور کیلئے روانہ ہوئے ، آپ گھوڑے پر سوار تھے ، جبکہ ہم دین پور کے قریب پہنچے تو شاہ صاحب گھوڑے سے نیچے اُتر ے اور پیدل چلنا شروع کر دیا ، آپ نے فرمایا کہ دین پور شریف ادب کی جگہ ہے ، جب دین پور شریف پہنچے تو شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں تو بیمارتھا اب میری بیماری جاتی رہی ہے ۔مولانا لقمان علی پوریؒ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایک اور دفعہ شاہ صاحب دین پور شریف آئے تو سیدھے قبرستان گئے اور حضرت خلیفہ غلام محمد صاحب کی قبرپر کافی دیر مراقبہ فرمایا۔ مولانا عبید اللہ سندھی کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔