اْردو شاعری میں مجموعی طور پر جب عشق کا ذکر آتا ہے تو اْس سے مراد عشق مجازی ہوتا ہے۔ محبوب کی یاد میں، اْسکے فراق میں، ہجر میں غرضیکہ کسی بھی پہلو سے اس کے اشارے اور کنایے کسی حْسین دلنشیں کی زلف گرہ گیر سے ہی مخاطب نظر آتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں جب صوفی منش شاعر و نثرنگار مولانا الطاف حسین حالی کے یہ اشعار نظر سے گزرے تو میں چونک اْٹھا۔ اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا جس گھر سے سر اْٹھایا اْس کو بٹھا کے چھوڑا راجوں کے راج چھینے، شاہوں کے تاج چھینے گردن کشوں کو اکثر نیچا دکھا کے چھوڑا اک دسترس سے تیری حالی بچا ہوا تھا اس کے بھی دل پہ آخر چرکا لگا کے چھوڑا پھر جگر مراد آبادی کا یہ شعر تو عشق کی سختیوں اور مشکلات کو بیان کرتے ہوئے زبان زدِ عام ہو گیا۔ یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے اسی شعر کے جواب میں سیالکوٹ میں ہمارے اْستاد محترم پروفیسر اصغر سودائی نے کچھ اسطرح کہا کہ عشق وہ آگ ہے اصغر جو ہے تاثیر میں سرد تو بھی جل بْھن کے اسی آگ میں ٹھنڈا ہو جا اور پھر غالب تو اْستاد ٹھہرے۔ عشق کے بارے میں ایک بہت مختصر مگر لازوال شعر کہا کہ سمندر کو کوزے میں بند کر دیا۔ عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا درد کی دوا پائی، دردِ لا دوا پایا مگر عصرِ حاضر کے سب سے بڑے فلسفی شاعر علامہ اقبال کے ہاں عشق کا ایک الگ، جْدا، نرالا اور دلکش و دلفریب فلسفہ ہے۔ علامہ اقبال نے روایتی شعرا کی طرح جذبہ عشق کو بیان نہیں کیا نہ ہی گل و بْلبل کی حکایات بیان کی ہیں۔ نہ ہی محبوب کے ہجر و فراق میں ٹسوے بہائے ہیں بلکہ علامہ اقبال کے ہاں فلسفہ عشق ایک لازوال جذبہ، ایک خوبصورت اْمنگ و ترنگ میں نظر آتا ہے۔ اقبال کے ہاں زمان و مکان کی ساری رعنائیاں، گلستانِ رنگ و بو کی ساری خوبصورتیاں اسی عشق کی مرہونِ منت ہیں۔ یہاں عشق کا ایک الگ رنگ نظر آ رہا ہے۔ اقبال عشق کو زندگی کا راز، سرمستی اور جنون سمجھتے ہیں۔ کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق کبھی سوز و سرورِ انجمن عشق کبھی سرمایہ محراب و منبر کبھی مولا علی خیبر شکن عشق اقبال اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آل وسلم ایک ایسا خوبصورت، دلنشین اور دلوں کو منوّر کرنے والا موضوع ہے کہ یہ ایک الگ کالم کا متقاضی ہے۔ اقبال نے عشق رسول صلی اللہ علیہ و آل وسلم میں ڈوب کر جو کلام کہا وہ پْر اثر اور سحر انگیز ہے۔ خصوصاً اْن کا فارسی کلام ایسے نظر آتا ہے کہ شاید اقبال کی شاعری کا محور و مرکز عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آل وسلم ہی تھا۔ عشق کے مضراب سے نغمہ تارِ حیات عشق سے نْور حیات، عشق سے نارِ حیات مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰﷺ عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام عشق جاودانی، عشق حقیقی اور عشق لازوال علامہ اقبال کے ہاں ایک مستقل موضوع، ایک ولولہ اور ایک فلسفہ ہے۔ مشہور زمانہ نظم ساقی نامہ میں اقبال عشق کی کھوج اور تلاش میں اپنی ملّت کے نوجوانوں سے یوں مخاطب ہے کہ لگتا ہے کہ اْس نے تمنائے عشق میں اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے۔ کیا خوبصورت و دلکش انداز ہے۔ بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے مجھے عشق کے پر لگا کر اْڑا میری خاک جگنو بنا کر اْڑا تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دلِ مرتضیٰ، سوزِ صدّیق دے علامہ اقبال کا فلسفہ عشق سمجھنے کے لیے اْس تڑپ اور بے چینی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو اْنکی بصیرت اور نگاہ پاکباز کو مسلم نوجوانوں کی تن آسانی، بے فکری اور غلامی کے ساتھ سمجھوتہ کرتے نظر آ رہی تھی۔ اقبال نے اپنی لازوال آفاقی شاعری کی بدولت مسلم نوجوانوں کو جنجھوڑا، بیدار کیا اور اس مقصد کے لیے عشق کے جذبہ کو اْبھارا۔ عشق سے شناسائی، عشق سے وارفتگی اور عشق سے آگاہی سے بہتر دیگر کوئی جذبہ ، کوئی اْمنگ اور کوئی ترنگ خواب غفلت میں گرفتار مسلم نوجوان کو جگانے کے لیے کارگر نہ ہو سکتی تھی۔ جمالِ عشق و مستی نَے نوازی جلالِ عشق و مستی بے نیازی کمالِ عشق و مستی ظرفِ حیدر زوالِ عشق و مستی حرفِ رازی کیا خوبصورت و دلکش اندازِ زبان ہے۔ یہ اقبال کا ہی خاصہ ہے۔ اور اقبال یہ سب کچھ ایک الہامی وارفتگی میں کہہ سکتے ہیں۔ نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے شکارِ مرْدہ سزا وارِ شاہباز نہیں ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومت عشق سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں