یہ سترہ مارچ کا دِن تھا۔علامہ ناصر مدنی لاہور کے علاقہ مزنگ میں موجود تھے،اِنہیں واٹس ایپ پر کال آتی ہے، کہا جاتا ہے ’’ہم لندن سے کروناوائرس سے بچ کر آئے ہیں، آپ سے دُعا کی درخواست ہے،ہم اس وقت کھاریاں میں ہیں ،فلاںہوٹل پر دُعا کے لیے آپ کے منتظر ہیں۔اچھا سا پُرتکلف کھانا بھی پیش کریںگے اور دُعا بھی کروائیں گے‘‘۔علامہ ناصرمدنی ،جن کی سوشل میڈیا پر بہت شہرت ہے،نے کچھ تاّمل برتا ،مگر وہ بضد رہے ،آخر کار یہ لاہور سے کھاریاں کی طرف ہولیے ۔آگے کیا ہوا؟ذراتوقف کریں۔ یہاں ایک کہانی آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے: مصر میں ایک گائوں کامذہبی پیشوا ،اپنی خداترسی،نیک نامی اور بزرگی میں شہرت کا حامل تھا۔یہ چھوٹا سا گائوں پہاڑ کے دامن میں آباد تھا۔گائوں بھر کے لوگ مذہبی پیشوا سے اپنے دُکھوں سے نجات کی دُعا کرواتے۔یہ ایک دِن کا واقعہ ہے کہ پہاڑ سے کچھ لوگ خچروں پر بیٹھ کر نیچے آتے دکھائی دیے۔گائوں والے ایک جگہ جمع ہوگئے۔یہ تین لوگ تھے،ہجوم نے تینوں کا استقبال کیااور گائوں میں آنے کی بابت پوچھا۔اُن میں سے ایک نے مذہبی پیشوا کا نام لیا کہ اُن سے ایک درخواست کرنے آئے ہیں۔مذہبی پیشواجو وہاں موجود تھا،گویاہوا’’فرمائیے ،مَیں آپ کے کس کام آسکتا ہوں؟‘‘ وہ شخص بولا’’ہمارے گائوں میں ایک آدمی شدید بیمار ہے، گائوں کے حکیم اُ س کا بہتیرا علاج کرچکے ،مگر کسی طور آرام نہیں پڑ رہا، آپ کی شہرت کا سن رکھا تھا،گائوں والوں نے آج فیصلہ کیا کہ آپ سے درخواست کی جائے کہ آکر مریض کے لیے دُعافرمادیجیئے،ممکن ہے کہ آپ کی دُعا کی بابت ،خدا اُس کی زندگی میں برکت ڈال دے‘‘وہ اپنا مُدعا بیان کرکے خاموش ہوگیا۔مذہبی پیشوا نے گائوں والوں کی جانب دیکھا،سب کی چہروں پر ایک ہی کہانی لکھی تھی کہ اُنہیں یہ التجا نہیں ٹالنی چاہیے۔یوں یہ ساتھ ہو لیے۔تینوں اجنبی گائوں والوں کا شکریہ ادا کرکے ،اِنہیں خچر پر بٹھا کر ساتھ لے گئے،جب تک تینوں خچر پہاڑ کے اُس طرف اُتر نہ گئے،گائوں والے وہاں کھڑے رہے۔جیسے ہی پہاڑ سے یہ لوگ نیچے اُترے ،دُور ایک فاصلے پر گائوں کے آثار نظر آنا شروع ہوئے۔تینوں اجنبی بڑے ادب و احترام اور تشکر کے جذبات کے ساتھ مذہبی پیشوا کو لے کر جارہے تھے۔ابھی گائوں کی سرحد شروع ہی ہوئی تھی کہ سامنے ایک لنگڑا شخص آتا دکھائی دیا۔قریب آکر اُس نے احترام سے سلام کیا اور ساتھ ہی دُعا کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی آمد کا سن کر یہاں پہنچا ہوں۔ ایک عرصہ سے ٹانگ میں درد ہے ،درد کی وجہ سے لنگڑا کر چلنا پڑتا ہے ،آپ اگر دُعا فرمادیں گے تو نوازش ہوگی۔مذہبی پیشوا نے خچرپر بیٹھے ہی ہاتھ دُعا کے لیے بلند کیے۔اِدھر دُعا ختم ہوئی اُدھر اُس آدمی کی لنگڑاہٹ ختم ہوئی۔وہ بھلاچنگا ہو گیااور خوشی سے بھاگتا ہوا گائوں کی طرف چل دیا۔مذہبی پیشوا اندر ہی اندر بہت خوش ہوا۔پھر یہ قافلہ آگے چل پڑا۔ابھی گائوں میں داخل ہونے ہی والے تھے کہ نابینا شخص نے راستہ روکا اور دُعا کی درخواست کی،مذہبی پیشوا نے دُعا کی،حیرت انگیز طور پر اُس شخص کی بینائی لوٹ آئی ،وہ نیک آدمی کے پائوں پڑ گیا۔اُس کو شکر کے الفاظ نہیں سوجھ رہے تھے۔ جب وہ تینوں شخص ،اِنہیں لے کر متعلقہ گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ مریض کی حالت بہت بگڑ گئی تھی اور ساتھ دوسرے گائوں میں ایک حکیم کے پاس گھر دولوگ لے کر گئے ہیں ۔مذہبی پیشوا کو عزت کے ساتھ ایک کمرے میں بٹھادیا گیا۔اُدھر گائوں کے لوگ جوق در جوق دُعا کے لیے آتے چلے گئے اور سب کے سب شفا پاتے چلے گئے۔رات پڑگئی ،اِنہیں پُرتکلف کھانا پیش کیا گیا اور یہ گذارش کی گئی کہ آج کی رات آپ کا قیام اِدھر ہی ہے،مریض کو واپس لانے کے لیے دوآدمی بھیج دیے گئے ہیں ۔ اگلی صبح گائوں کے لوگ دُعا کے لیے آتے رہے۔وہ دِن بھی گزرگیا ،مگر مریض نہ آیا۔مزید دوآدمی بھیجے گئے کہ مریض کو واپس لائو تاکہ دُعاکروائی جاسکے۔دوسرے دِن دوپہر کے وقت مریض کو لایا گیا۔مذہبی پیشوا نے لمبی دُعا کی۔ مریض جو ایک عرصہ سے طبیبوں کی ادویات سے ٹھیک نہیں ہورہاتھا،دُعا کے فوری بعدایسا صحت مند دِکھائی دینے لگا،جیسے کبھی بیمار ہی نہ ہوا ہو۔ مذہبی پیشوا اندر ہی اندر بہت خوش ،پورا گائوں اُنہیں الوداع کرنے گھروں سے باہر نکل آیا۔یہ اُنہیں تین لوگوں کے ساتھ واپس ہو لیے۔ شام کے سائے پڑنا شروع ہوئے تو یہ پہاڑ کے اُوپر پہنچ گئے۔یہاں پہنچ کر مذہبی پیشوا نے تینوں سے کہا ’’ آپ لوگ واپس جائیں ،رات پڑنے والی ہے، یہاں سے چلا جاتا ہوں ،میرا گائوں اب بالکل قریب ہے‘‘وہ تینوں واپس ہو لیے۔یہ خچر پر پہاڑ سے نیچے اُترتے چلے گئے۔نیچے پہنچے تو پورا گائوں استقبال کے لیے موجود تھا۔یہ بہت خوش ہوئے کہ ان کی دُعائیںرنگ لائیں اور شہرت بھی آسمان تک جاپہنچی۔گائوں کے بڑے نے آگے بڑھ کر پوچھا ’’عزت مآب !کوئی تکلیف تو اُن لوگوں نے نہیں پہنچائی‘‘’’تکلیف کیسی !مجھے تو وہ عزت اور آرام دیا گیا کہ جیسے میری پوجا کی جارہی ہو‘‘مذہبی پیشوا بولے۔گائوں کا بڑا بولا’’محترم! وہ لوگ آپ کو اغوا کر کے لے گئے تھے۔جو رقم اُنہوں نے تاوان کی مانگی ،اُس کا بندوبست کرتے کرتے ،ہمیں ڈیڑھ دِن لگ گیا،ہم پریشان تھے کہ کہیں اغوا کارآپ کو نقصان ہی نہ پہنچادیں‘‘ مذہبی پیشوا یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے۔ اب ہم ناصر مدنی کی طرف آتے ہیں۔ایسی ہی واردات اِن کے ساتھ کی گئی اور یہ شریف آدمی لاہور سے کھاریاں کرونا سے بچ کر آنے والوں کے لیے دُعا کرنے پہنچ گئے۔وہاں اِن پر تشدد کیا گیااور بے حد تکلیف پہنچائی گئی۔اس واردات کی تفصیل میڈیا اور سوشل میڈیا پر موجود ہے۔علامہ ناصر مدنی کو کھاریاں کے علاقہ ڈنگہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو چکا ہے۔تاہم اس واقعہ سے یہ ضرور ظاہر ہوا کہ علامہ ناصر مدنی سچے اور شریف آدمی ہیںاوران پر تشدد کرنے والے ڈھورڈنگر ہیں۔