خوبی اور خاصیت میں، انفرادیت اور امتیاز میں، کسی نہ کسی طرح ہر شخص دوسرے سے ممتاز ہوتا ہے ۔سیدناعمر مگر سراپا امتیازات تھے۔ہونا بھی چاہئے تھا۔ اسلام کے اولیں ستم رسیدہ انسانوں کے لیے ڈھال کے طور پررسولؐ اللہ نے مکہ کی جو دو سربرآوردہ شخصیات خدا سے مانگ لی تھیں، ان میں سے یہی عمرؓ خد اکا انتخاب تھے۔ رضی اللہ عنہ۔خدا کے حضورپیغمبرِ اسلام کی درخواست یہ تھی ، عمرو بن ہشام یا عمر بن خطاب میںسے اسلام کے لیے اے خدا جو تجھے پسندہے ، وہ عطا فرما دے۔ خدا کا فیصلہ یہ تھا کہ عمرو بن ہشام ابو جہل بنے گا اور خطاب کا بیٹا عمر خلیفہ ثانی ۔ کیا خوب بات کسی نے کہی کہ سب رسول اللہ کے مرید تھے مگرعمر ؓ مراد۔ یہ خلیفہ ٔ ثانی تھے مگرشخصیت وعبقریت میں لاثانی ۔دو گواہیاں ثابت کر دیتی ہیں کہ عمر ؓ کا مانگا جانا اوراسلام میں آنا مکہ یا تاریخِ اسلامی کا معمولی واقعہ نہ تھا۔عمرؓ بعد میں اسلام اور تاریخ اسلام کا چہرہ اور شناخت بن گئے۔تاریخ کی سو موثرترین شخصیات نامی کتاب میں عیسائی مصنف مائیکل ایچ ہارٹ نے رسولِ رحمتؐ کے بعد اسلام میں سے سیدنا عمر کو چنا۔ سیدناعبداللہ بن مسعودؓ کی گواہی ریکارڈ پر ہے ، فرمایا، عمر آئے تو کونوں کھدروں میں نمازیں پڑھنے والے ہم صحنِ کعبہ میں اٹھ آئے ، فرماتے ہیں کہ عمر کے اسلام لانے کے ہر دن بعد ہم طاقتور اور معتبر ہوتے گئے۔صہیب بن سنانؓ بیان فرماتے ہیں ،عمرؓ کے اسلام لاتے ہی اسلام کھل کے سامنے آگیا۔ ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے اور طواف کرنے کے قابل ہو گئے ، ہمیں صحنِ کعبہ میں مجلس لگا کے بیٹھنے کا موقع ملا۔جو بھی آڑے آیا ، عمرؓ کی مزاحمت کی تاب نہ سکا۔ پٹ گیا اور مسلمانوں کی راہ سے ہٹ گیا۔آنجناب اسلام لائے تو عجب شان سے اور ہجرت کی تو انوکھی آن سے۔ مخالف ایسے تھے کہ کئی ایک ان کے ہاتھوں محض اسلام لانے کے جرم میں پٹ چکے تھے۔ دل جب روشن ہوا تو پوچھا، کون ہے جو کم ترین وقت میں خبر پورے مکہ میں پھیلا سکتاہے؟ کسی نے بتایا جمیل جمحی۔ اسی کا در وازہ جا کھٹکھٹایا اور خبر دی کہ عمرؓ اسلام کے سائے میں آ چکا۔جیسا بتایا گیا تھا، وہ ویسا ہی نکلا ، کمر پر چادر باندھ رہا تھا، جب یہ خبر سنی ، چادر باندھنے پر وقت ضائع کرنا اس نے مناسب نہ سمجھا۔ ویسی ہی حالت میں ، یعنی چادر ہاتھ میں پکڑ ے بیت اللہ میں لگی قریشی مجلس میں جا دھمکا اور چلا چلا کے پکارنے لگا، عمر نعوذ باللہ بے دین ہو گئے ۔ظاہر ہے کچھ وہاں جنابِ عمر کو سہنا بھی پڑا۔ہجرت کی تو قطعی الگ شان سے ۔ابنِ عباس ؓسیدنا علی ؓ سے نقل فرماتے ہیںکہ سوائے سیدنا عمر ؓکے کسی نے اعلانیہ ہجرت نہیںکی۔ مشرکیں کا قہر اور دبدبہ ایسا تھا کہ سب چپکے چپکے عازمِ مدینہ ہوگئے۔ عمر مگر ایسا کر تے تو انھیں عمرؓ کون کہتا۔تلوار گلے میں لٹکائی ، کندھے پر کمان دھری، ہاتھ میں تیرلیا اور پہلو میں نیزاڑسا۔ بیت اللہ پہنچے اور اطمینان سے سات چکر طواف کے پورے کیے ، مقامِ ابراہیم پر دو نفل پڑھے اور ایک ایک قریشی مجلس میں جا کے اپنی ہجرت کا اعلان کیا۔ ذرا لفظ تو دیکھئے کیسے بانکے برتے ۔ فرمایا، تمھارے چہرے بگڑیں، خد ا کی تم جیسوں پر مار ہو ، جو آئندہ اپنی ماں کو اپنا منہ نہیں دکھانا چاہتا اور جو چاہتا ہے کہ بچے اس کے آج کے بعد یتیم اور بیوی اسکی بیوہ کہلائے ، وہ آئے اور مجھے حرم سے باہر وادی میں آملے ۔یہ کہہ کے وادی میں انتظار کرتے رہے۔ کون آتا؟ ہاں مسلمان ضرور الوداع کہنے پہنچے ۔ انھیں تسلی دیتے نقشِ قدم رسول پر عازمِ مدینہ ہو گئے ۔ اقبال کی شاعری کاایک لفظ میں اختصار کرنا ہو توخودی کا لفظ کافی ہو گا۔ سیدنا عمر میں خود شناسی اور خود نگری کا عجب ہی عالم تھا۔وہ واقعی عین وہی مردِ مومن تھے اقبال کی شاعری جس کا خواب دیکھتی اور دکھاتی ہے۔کسی نے توجہ نہیں دی ، وگرنہ سیدناعمر کی حیات کے وہ پہلو جمع کیے جاتے تو حیرت کا جہان جمع ہو جاتا، کہ جہاں جہاں اپنی دو ٹوک اور منفرد رائے سے آپ ممتاز ہوئے۔صلابتِ رائے، ثابت قدمی اور بے لاگ گفتگو خصوصی پہچان تھی۔ جو کہنا چاہتے بے دریغ اور بے لاگ کہہ دیتے۔ مثلاً رسولِ رحمت نے پوچھا کہ مجھ سے کتنی محبت ہے تو بے دھڑک یہ کہا، اپنی جان کو چھوڑ کے باقی ہر چیز سے زیادہ۔بتایا گیا کہ ایمان کچھ بھی الگ رکھا ہوا دیکھنا نہیں چاہتا، فی الفور پکار اٹھے اگر یوں ہے تو جان بھی الگ کیا رکھنی۔ جان بھی یار کے قدموں پر نثار۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی ان کا موقف منفرد تھا۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق رائے یہ تھی کہ ستم کے سرداروں کے سر اڑا دئیے جائیں اور اڑائیں بھی وہ کہ جن جن کے یہ رشتہ دار ہوں۔ متعدد بار یوں ہوا کہ زمیں پر عمرؓ اپنی رائے پیش کرتے تو آسمان سے قرآن اس رائے کی تائید میں اتر آتا۔ خود فرمایا، تین بار میری رائے قرآن کی موافقت میں رہی ۔ لیکن اس کے بعد بھی اور اس سے زیادہ بھی۔ خلیفہ بنے تواک نئے عمر ؓدریافت ہوئے۔ آرام خود پر گویا حرام کر لیا۔ رعایا کی خبر گیری راتوں کو جاگ جاگ کے کرتے۔اقلیتوں کے حقوق پر پورا پہرہ دیا۔ آزادی اظہار کو پوری راہ دی۔ متعددنئے حکومتی نظام اختراع فرمائے۔ ڈاک ، پولیس ،جیل خانے، مردم شماری ، ویلفیئرکے متعدد معاملات ایجاد فرمائے ، اسلامی کیلنڈر کا آغاز فرمایا۔ احتساب کا ایسا کڑا نظام کہ تیر کی طرح گورنر سیدھے کر دئیے۔گورنر کے بیٹے کی شکایت پر اسے کوڑے لگوائے ، یہ بھی کہا ، اس کے باپ کو بھی لگاؤ کہ جس کی شہ پر اس کو یہ جرات ہوئی ۔ بائیس لاکھ مربع میل پر اسلام کا پھریرا لہرا دیا۔کرتے پر مگر پیوند لگے ہوتے۔ عیسائیوں کو حقوق دئیے ، مسلمانوں کی راز داری میں شریک کرنے سے مگر صاف منع فرما دیابلادِ شام سے فتح کی خوشخبری آئی توابو موسیٰ اشعریؓ سے فرمایا ، اپنے کاتب سے کہو ، مسجد میں سب کو پڑھ کے سنائے ۔ بتایا گیا، اس کا مسجد میں داخل ہونا محال ہے کہ غیر مسلم ہے۔ فرمایا، جنھیں اللہ نے دور کر دیا، انھیں قریب نہ کرو، جنھیں خدا ذلیل کر چکا ، انھیں عزت مت دو۔جنھیں خد اخائن قرار دے چکا ، انھیں امانت دار نہ سمجھو، میں تمھیں اہل کتاب کو کوئی بھی ذمے داری سونپنے سے منع کرتا ہوں ، وجہ یہ بھی ہے کہ یہ رشوت کو جائز سمجھتے ہیں۔ابو لؤ لؤ مجوسی نے زہر بجھے خنجر سے پے در پے کئی وار کرکے اس عبقری کو شہادت آشنا کر دیا ۔ مصلیٰ رسول پر عمر کا مقدس لہو بہنے لگا۔ آپ اس وقت نمازِ فجر پڑھا رہے تھے۔شہادت کے وقت عمر مبارک تریسٹھ برس تھی اور مدتِ خلافت دس سال چھ ماہ اور کچھ دن۔جن کے ساتھ زندگی بتائی تھی ، قیامت تک کے لیے انہی کے حجرے میں جا سوئے۔ خد ارحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔