کالج جانا ہوا تو پروفیسر دوستوں میں گھر گئے۔ پروفیسر طارق صاحب فرمانے لگے یار، اپنے عمران خان سے کہیں کہ وہ صبح دو گھنٹے ورزش ضرور کرے مگر اتنا ہی وقت کتب بینی کو بھی دے۔ یعنی کتاب کا پڑھنا بھی اپنے معمول میں لائیں۔ اب بتائیے ہم کون ہوتے ہیں عمران خان کو مشورہ دینے والے ویسے بھی سنتے سب کی ہیں اور کرتے اپنی ہیں۔ دوسری بات بقول غالب: ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی اسد اعوان صاحب نے بھی کچھ اس طرح کی طنزیہ بات کی تو ہم نے انہیں بتایا کہ ویسے تو نوازشریف لوگ بھی کم صحت مند نہیں ہیں اگرچہ ان کی ورزش کھانے پر ہوتی ہے۔ کھانا کھانا بھی ایک اچھی خاصی ایکسرسائز ہے۔ شہبازشریف تو اٹھارہ گھنٹے تک جاگ سکتے ہیں یا جاگتے ہیں اور دوسروں کو بھی چین سے سونے نہیں دیتے۔ اس بات سے مجھے پروفیسر طفیل دارا یاد آ گئے جو ایم اے او کالج میں تھے تو ایک مرتبہ ایکسیڈنٹ کے باعث انہوں نے کئی جگہ پٹیاں باندھی ہوئی تھیں۔ سامنے سے عطاء الحق قاسمی آئے تو کہنے لگے دارا صاحب رات کتھے مشاعرہ پڑھیا جے۔ وہ عطاء صاحب کو مارنے کے لیے دوڑے۔ یہ بڑے پیار اور کھرے لوگ تھے۔ محبت کرنے والے۔ ایک مرتبہ طفیل دارا اپنے گھر میں مگدر اٹھا کر ورزش کر رہے تھے۔ اسی ویٹ لفٹنگ کے دوران ان کے سامنے غالب کی تصویر آویزاں تھی دارا صاحب غالب کو مخاطب ہو کر دونوں بازو ویٹ سمیت اٹھاتے اور کہتے، غالب! جے تو ساڈے دور وچ ہوندا تے لگ پتہ جاندا۔ بہرحال عمران خان کے بارے میں ایسا نہیں۔ یقینا وہ مطالعہ پر یقین رکھتے ہیں۔ آخر ہارون رشید کے ساتھ ان کا گہرا ساتھ رہا ہے اور ہارون صاحب نے ان پر کتاب بھی لکھی ہے۔ ویسے بھی مطالعہ آپ کی گفتگو میں خود بولتا ہے۔ اس پر ہمارے پروفیسر عزیز صاحب نے بھٹو کی مثال پیش کی کہ وہ کس صورت حال میں آئے کہ جب 93ہزار فوج اسیر تھی، کتنی زمین بھارت کے قبضہ میں تھی۔ بھٹو نے سب کچھ کلیئر کیا، قوم کو مایوسی سے نکالا، 73ء کا آئین دیا اور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی وہ بنائے گئے۔ بات ان کی درست تھی کہ بھٹو بہت انرجیٹک تھے۔ خیر ان کے پاس مینڈیٹ بڑا تھا۔ عمران خان کے مقابلے میں ان کے پاس اختیارات کہیں زیادہ تھے۔ ایک بیوروکریسی کو لے لیں۔ وہ اسے چلنے ہی نہیں دے رہی۔ سب سے بڑی بات اس کا نعرہ کہ کرپشن کا تدارک کرے گا۔ اس کے ساتھ بھی گھاگ لوگ آ گئے۔ عمران خان کو شرمندہ کروانے والے۔ لیکن بات اتنی سادہ بھی نہیں۔ بات تو درست ہے کہ وہ حکومت کرنے کے لیے شاید تیار نہیں تھے یا ان میں اہلیت ہی نہیں۔ اسد عمر فیلڈ میں آئے لیکن متاثر نہیں کر سکے۔ عوام کو تو ریلیف چاہیے ہوتا ہے جو سیدھے الفاظ میں انہیں نہیں ملا۔ تقریباً ہر شے مہنگی ہو چکی ہے۔ آمدن بڑھنے کا کوئی وسیلہ یا ذریعہ نظر نہیں آ رہا۔ بہت سے لوگ چھت سے محروم ہو گئے۔ عمر گزری ہے در بدر اپنی ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے لگتا ہے کافی سفر کھوٹا ہو چکا ہے۔ کھوٹے سکے ضروری نہیں کہ چل جائیں۔ کوئی فواد چوہدری اور چوہان کو کہاں تک سنے۔ بات میں غصہ اور نامناسب رویہ سب کو متاثر نہیں کرتا۔ اس میں حکمت و دانش ہونا بھی ضروری ہے۔ پوچھنے والے پوچھتے تو ہیں کہ آپ نے ابھی تک ایک بل بھی اسمبلی میں پیش نہیں کیا۔ منظور ہونے کی بات تو بعد کی ہے۔ نیب عمران خان کو طلب کرلے تو اس میں پی ٹی آئی کے بزرجمہروں کو خان کی توہین نظر آتی ہے۔ قانون بھی ایکسرسائز مانگتا ہے۔ اس میں بھی انصاف ایکسرسائز ہو گا توقانون میں طاقت آئے گی وگرنہ وہی جو کہا جاتا ہے کہ طاقتور کے لیے یہ تارعنکبوت کا یعنی مکڑی کا جالا ہے۔ جسے کسی وقت بھی توڑا جا سکتا ہے۔ آپ اسے خس و خاشاک کہہ لیں۔ غریب کے لیے یہی قانون لوہے کے چنے ہیں۔ ویسے تو صاحب حیثیت قانون کے لیے لوہے کا چنا ہے مگر سعد رفیق کا یہ خیال اسے مہنگا پڑا۔ یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ قانون اصل میں طاقتور کو غریب کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اگر چاہیں تو بڑے بڑے سیدھے ہو جاتے ہیں۔ منشا بم جیسے ٹھس ہو جاتے ہیں۔ منصف چاہے تو عدالت بہت طاقتور ہے حکمران چاہے توسونے پر سہاگہ ہے۔ یہ تبدیلی تو بہرحال آئی ہے کہ نوازشریف اور ان کے ماننے والوں کو حالیہ انصاف سے ایک گو نہ خوشی ملی ہے ۔ سندھ جیسی ہائپ کریئٹ کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی کہ اصل بات سامنے آئے تو وہ پسپائی محسوس ہونے لگے۔ ظاہر ہے ملک مزید انتظار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ عدلیہ کو بہت رول پلے کرنا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار جا رہے ہیں۔ عدلیہ ایک باوقار ادارہ ہے جو کم از کم اس وقت بہت عزت سمیٹ چکا ہے۔ میرا خیال ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار جو ذائقہ دے کر جا رہے ہیں، اس کا ختم ہونا آسان نہیں۔ آنے والوں کی بقا بھی اسی میں ہے۔ عمران خان نیت کے ساتھ اپنے مشن پر لگے رہیں۔ اچھے دن ضرور آئیں گے۔ لوگوں کو تحفظ اور امن عامہ چاہیے اور سب سے بڑھ کر کرپشن کا خاتمہ۔ اس وقت بے شک کچھ غلطیاں ضرور ہوئی ہیں مگر ایسا نہیں کہ کوئی کہے کھا گئے، لوٹ کرلے گئے۔ آخر میں دو شعر واسطہ یوں رہا سرابوں سے آنکھ نکلی نہیں عذابوں سے میں اکیلا تھا اور تنہا تھا شہر لایا ہوں اک خرابوں سے