یہ سوال پچھلے دو ماہ میں کئی لوگوں نے پوچھا کہ وزیراعظم عمران خان جنگ وجدل کے موڈ میں کیوںلگ رہے ہیں ؟ وہ چومکھی لڑنے کا تہیہ کیوں کئے بیٹھے ہیں؟ چومُکھی (چو یعنی چاروں ، مُکھ یعنی منہ،چہرہ)لڑنے سے مراد کسی جنگجو کااپنے چاروں طرف بیک وقت جنگ کرنا ہے۔ بدھ کی شام اپنی تقریر میں خان صاحب نے ایک بار اسی جارحانہ انداز کا مظاہرہ کیا اور اپنے سیاسی مخالفیں کو للکارتے ہوئے دبنگ انداز میں تندوتیز جملے بولتے رہے۔ سمارٹ موبائل فون پرمختلف موڈ یاماڈ(Mode)کی سہولت موجود ہوتی ہے، جہاز میں سفر کرتے ہوئے آپ فلائیٹ ماڈ لگا دیں تو کسی کے لئے آپ سے رابطہ کرنا ممکن نہیں رہے گا، اسی طرح بعض اور آپشنز بھی دستیاب ہیں۔ عمران خان صاحب بھی آج کل جنگجوانہ کیفیت(Warrior,s Mode)میں ہیں۔ اس پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے ان کی تقریر پر ایک نظر ڈالتے ہیںکہ پچھلے کچھ عرصہ سے اس پر بات کر نا چاہ رہا تھا۔ یہ ماننا پڑے گاکہ وزیراعظم عمران خان نے دوسرے وزرا اعظم کے برعکس نہایت غیرروایتی، غیر رسمی انداز میں تقریروں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ وہ اپنے جلسوں کی تقریر، ٹی وی انٹرویوز اور قوم سے خطاب کوایک ہی انداز میں ڈیل کرتے ہیں۔ لکھی گئی تقریر کی جگہ فی البدیہہ گفتگو کر ڈالی، زیادہ اہم تقریر ہوئی تو اس کے لئے ہلکے پھلکے سے نوٹس بنا لئے ، ان چند سطروں پر مبنی نوٹس کو صرف اہم نکات یاد رکھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ان کے حامی اس ادا کو پسند کرتے اور اس کا موازنہ میاں نواز شریف کی چٹوں کی مدد سے کئی جانے والی گفتگو سے کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف صاحب اچھے مقرر کبھی نہیں رہے، مگر پچھلے چند برسوں سے شائد ان کے اعصاب کچھ سست ہوگئے یا اپنی عمرا ور جسمانی عارضوں کی وجہ سے وہ اپنے نوٹس اور چٹوں پر زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں۔ عالمی لیڈروں سے ون آن ون ملاقاتوں میں جب نواز شریف صاحب ہاتھ میں کئی چٹیں تھامے نظر آتے ہیں تو ان کی ذہانت اور حاضر دماغی کے حوالے سے زیادہ اچھا تاثر نہیں بنتا۔ عمران خان کا رویہ اس کے برعکس رہا ہے ۔ ویسے ان کی شہرت بھی غیر معمولی خطیب یا مقرر کی نہیں رہی، لیکن وہ روانی سے اپنا مافی الضمیر بیان کر لیتے ہیں، اپنے سیاسی کیرئر میں انہیںبے شمار ٹی وی ٹاک شوزمیں شرکت سے فائدہ پہنچا اور وہ بولنے میں زیادہ رواں ہوگئے ۔اپنے لباس، ہیئر سٹائل ، جوتوں وغیرہ کے حوالے سے بھی عمران خان خاصے بے نیاز واقع ہوئے ہیں۔ ان کا اپنا ایک مخصوص رف اینڈ ٹف طرز زندگی ہے، جو ایک طرح سے اب ان کا سٹائل بن چکا ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد سے تو لگتا ہے وہ اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی بے پروا ہو گئے ہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد بنی گالہ سے ان کی تقریر کئی حوالوں سے بہت مشہور ہوئی، ان میں سے ایک حوالہ عمران خان کا سلوٹوں بھرا لباس بھی تھا، انہوں نے اپنی دھن میں لباس تبدیل کئے بغیر ہی تقریر ریکارڈ کرا ڈالی۔ پی ٹی آئی کے لوگ اسے عمران خان کا عوامی انداز کہتے اور ایسی تصاویر خوشی سے شیئر کرتے ہیں۔وزیراعظم کے طور پر ان کی تقریروں میں یہی رنگ غالب ہے۔عمران خان کی تقریر سنتے ہوئے محسوس ہو تا ہے کہ وہ اپنے دل کی آواز عوام تک پہنچانا چاہ رہے ہیں، اس لئے تکلفات ، رسمی جملوں، پریس سیکریٹریوں کی مخصوص زبان میں لکھی سپاٹ تقریر سے گریز کرتے ہیں۔خان صاحب کی مجموعی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ قابل فہم اور ایک حوالے سے مستحسن بھی ہے۔ گزشتہ روز والی تقریر کا آغاز فوری اور براہ راست تھا، ایک بھی رسمی جملہ ضائع کئے بغیر وزیراعظم مطلب کی بات پر آ گئے۔ یہ پہلو اچھا لگا۔ عوام کو اعتماد میں لینے والی بات بھی قابل تعریف ہے۔ سیاست دان کی اصل قوت اس کے ووٹر اور عوام ہیں۔اسے چاہیے کہ ہر اہم فیصلے میں انہیں اعتماد میں لے، ان سے چیزیں شیئر کرے اور اگر مشکل، ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں تب بھی خود فرنٹ پر آ کربات کرے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں، لیکن عمران خان کو چاہیے کہ چاہے اپنی تقریر کے نوٹس خود لکھوا ئیں، جس غیر رسمی انداز میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں، اسی اسلوب میں لکھوا لیں، مگر ان کی اہم تقریریں لکھی ہوئی ہونی چاہئیں۔ وہ اب عام سیاستدان یا رکن پارلیمنٹ نہیں بلکہ سربراہ حکومت ہیں، ان کے ہر لفظ کی اپنی اہمیت ہے اور اس سے عالمی دنیا میں خاص تاثر پیدا ہوگا۔ دنیا بھر میں حکومتی سربراہان لکھی ہوئی تقریریں پڑھتے ہیں،چاہے وہ جتنے اچھے مقرر ہوں۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما غضب کے مقرر تھے، مگر اپنی مخصوص صدارتی تقریریں ہمیشہ انہوں نے لکھی ہوئی پڑھیں۔ اس سے پہلے ان کی پوری ٹیم بیٹھ کر ایک ایک لفظ پر گھنٹوں غور کرتی، ہر کامہ، فل سٹاپ پر سوچ بچار ہوتا اور پھر تقریر فائنل کی جاتی۔ پاکستانی وزیراعظم کی ظاہر ہے امریکی صدر جیسی قوت اور اہمیت تو نہیں ،مگر بہرحال اپنے دائرے میں اس کا ایک مقام ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ عمران خان کی تازہ تقریر اگر کسی پروفیشنل سپیچ رائٹر کی لکھی ہوتی تو سعودی عرب کا شکریہ ادا کرنے کے لئے دو تین موزوں جملوں کا انتخاب کیا جاتا کہ سعودی عرب ہمارا برادر مسلم ملک اور دیرینہ دوست ہے، ہر مشکل وقت پر اس نے ساتھ دیا اور اس بار بھی دل کھول کر ہماری مدد کی وغیرہ وغیرہ۔ خان صاحب نے اپنی تقریر میںشکریہ تو ادا کیا، مگر دو تین لفظوں میں بھگتا دیا، یہ مناسب طریقہ نہیں۔اِن فارمل ، رف اینڈ ٹف سٹائل سفارت کاری اور جہاں بانی میں نہیں چلتا۔ وہاں نپے تلے، سوچے سمجھے الفاظ اور جملے استعمال کئے جاتے ہیں۔خان صاحب کو یہ ہنر سیکھنا پڑے گا۔ عمران خان کی تقریر کا انداز جارحانہ تھا،اپنے اوپر تنقید کرنے والوں پر وہ برس پڑے۔ وہ ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ اگر اپوزیشن احتجاج کرنا چاہے تو وہ انہیںکنٹینر دینے کو تیار ہیں۔ اپوزیشن ہر بار ان کے اس حملے کا تلملا کر تلخ جواب دیتی ہے ، جس کے نتیجے میں سیاسی ٹمپریچر نیچے آنے کے بجائے پھر سے اوپر چلا جاتا ہے۔ عام طور سے اپوزیشن ہمیشہ ٹمپریچر بڑھانے اور ایجی ٹیشن کی طرف جانے کی کوشش کرتی ہے کہ اسے اس میں زیادہ فوائد ملتے ہیں۔ حکومتوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ سکون رہے اور ان کی تمام تر انرجی مختلف شعبوں میں ڈیلیور کرنے پر صرف ہو۔ عمران خان کا رویہ مختلف ہے ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ اس وقت ملک میں جاری احتساب کا عمل سول حکومت کی منظوری یا عدم منظوری سے مشروط نہیں۔ منی لانڈرنگ والا پورا معاملہ سپریم کورٹ کے زیرنگرانی چل رہا ہے۔ زرداری صاحب اور ان کے ساتھیوں انور مجید وغیرہ کے گرد گھیرا اسی حوالے سے تنگ ہو رہا ہے۔ عمران خان اگر چاہیں ، تب بھی وہ سپریم کورٹ پر اثرانداز نہیں ہوسکتے ۔ حکومت خاموش بیٹھی رہے، تعاون کرے یا نہ کرے، ہر صورت میں منی لانڈرنگ والا معاملہ اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا۔ اسی طرح ن لیگ کے خلاف کیسز کی پیروی نیب کر رہا ہے۔ زیادہ ترریفرنس وہ ہیں جو خود لیگی دور حکومت میں بھیجے گئے، چیئرمین نیب وہ شخص ہے جسے لیگی حکومت اور پیپلزپارٹی کے لیڈر آف اپوزیشن نے مل کرلگایا تھا، عمران خان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ عمران خان چاہتے تو وہ یہ کہہ سکتے تھے ’’ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے خلاف کیسز میں میرا کوئی کردار نہیں۔ میں کسی کے خلاف نہیں اور صرف اداروں کو مضبوط کرنا چاہتا ہوں تاکہ انصاف پر کام ہو اور کرپٹ عناصر کو شکنجے میں لانا ممکن ہو۔ ‘‘اس کے بجائے ہمیشہ وہ اپنے جارحانہ انداز اپناتے ہیں۔ ان کی یہ جارحیت بھی بلاسبب نہیں، اس کے پیچھے دو تین سیاسی وجوہات ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی مخالفین کو للکارتے رہنے سے ان کی اپنی کمزوری ظاہر نہیں ہوگی اور فولادی عزم ظاہر ہوگا۔ انتخابی مہم میں ملکی دولت لوٹنے والوں کے بے رحم احتساب کا نعرہ لگا کر کامیاب ہوئے ہیں، اپنے حامیوںکے سامنے سرخرو ہونا بھی ایک مقصد ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ ووٹر اس دبنگ انداز کو پسند کرتا ہے۔ تیسری وجہ ان کے لاشعور میں موجود عدم تحفظ ہوسکتا ہے۔ تحریک انصاف کو چند ووٹوں کی اکثریت سے پنجاب اوروفاق میں اکثریت ملی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ کہیں حکومت ختم نہ ہوجائے، اسی لئے وہ ایسا بلند آہنگ اظہار کرتے ہیں تاکہ اگر حکومت جائے تو پھر یہ بیانیہ اختیار کرنا ممکن ہوکہ کرپٹ لوگوں کے احتساب کی وجہ سے اقتدار گیا ۔ ایسی صورت میں پہلے سے زیادہ بہتر مینڈیٹ لینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ایک وجہ شائدیہ بھی ہو کہ انہیں لگ رہا ہے کہ اس وقت ملک کے تمام طاقتور ادارے کرپٹ عناصر کے احتساب کے لئے یکسو اور ایک صفحے پر موجود ہیں۔ خان صاحب یقینی طور پر چاہتے ہوں گے کہ یہ عمل آگے بڑھے اور اس کے نتیجے میں ان کے دونوں بڑے سیاسی حریف سیاسی طور پر تحلیل یا کمزور ہوجائیں ۔ وجوہات جو بھی ہوں، عمران خان کو بہرحال یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ چومکھی لڑنے کے تصور میں ایک جنگجوانہ رومانویت تو ہے، لیکن اگر وہ اس میں زیادہ الجھ گئے تو پھر وہ بہت کچھ ادھورا چھوڑنا پڑے گا، جسے ڈیلیور کرنے کا خواب انہوں نے اپنے حامیوں کو دلایا ہے۔