عمران خان وزیراعظم بن گئے، حلف بھی اٹھا لیا گیا۔ صوبے بھی سیاست میں اپنی اپنی جگہ بنا چکے۔ بڑے دنوں سے انتظار تھا، پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کا نام بھی سامنے آگیا۔ پاکستانی جمہوریت نے ایک قدم اور آگے بڑھا لیا۔ کچھ چیزیں نئی اور کچھ داغداربھی محسوس ہوتی ہیں ، کئی چیزوںپر لوگوں کے اعتراضات بھی ہیں۔ماننا چاہئے ،ہماری سیاست ابھی ایسی ہی ہے ، سیاست ہی کیا یہ زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ ہمیشہ سب اچھا اور بہترین نہیں ہوتااور یکدم تو بالکل نہیں ہوتا۔ دھاندلی کو اپوزیشن نے یک نکاتی ایجنڈا بنایا۔ انہوں نے اس پر کمیشن بنانے کی بات کی۔ ان کی تعریف کی جانی چاہیے کہ اپنے موقف پر یکسو ہونے کے باوجود انھوں نے سسٹم کا حصہ بننے کی کوشش کی۔ دراصل اسی میں ان کی ، سیاست کی اور پاکستان کی عافیت ہے۔ پارلیمنٹ ہی دراصل اہلِ سیاست کی اور جمہوریت کی طاقت کا مرکز ہے۔ یہ بات بھی عیاں ہو گئی کہ اپوزیشن متحد ہو کر ایک قدم بھی نہ اٹھا سکی۔کاٹھ کی ہنڈیا تو پھر ایک بار چڑھ جاتی ہے۔ اپوزیشن اتحاد سے اتنا بھی نہ ہوا۔ پہلے ہی دن سب کے رخ الگ الگ اور راہیں جدا جدا ہو گئیں۔یہ چیز بھی چلتی رہے گی۔یہ لوگ متحد اور منتشر ہوتے رہیں۔ وزیرِاعظم کے انتخاب کے بعد پارلیمنٹ میں شور شرابے کا جوشاندار مقابلہ منعقد ہوا۔ یہ اچھا نہیں ہوا، مگر اس سے زیادہ کی ہمیں فی الوقت اپنے سیاستدانوں سے توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے۔ن لیگ کے زخم ہرے بلکہ ہرے بھرے تھے ، انھوں نے اقتدار اور اختیار کے بڑے اچھے دن دیکھ رکھے تھے۔ ادھروفاقی اقتدار کی راہداریوں میں پی ٹی آئی نئی نئی داخل ہوئی تھی ، غمزدہ ن لیگ نے اپنا دکھڑا سنایا تو احتجاج اور اپوزیشن کی عادی پی ٹی آئی نے بھی اپنا سا ردِ عمل دے دیا۔ وہ شائستگی شعار کرتے اور یہ ردِ عمل کے بہائو میں نہ بہتے تو اچھا ہوتا۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا۔ خیر جو ہوا وہ بھی برا نہیں۔ شر میں بھی خیر کے مواقع چھپے ہوتے ہیں۔ چلئے ن لیگ نے اپنی بھڑاس نکال لی اور عمران خان کو پہلے ہی دن آئندہ دنوں کا عکس نظر آگیا۔ یقینا انھیں اندازہ ہو گیا کہ اقتدارکا کیک ملا ضرور ہے مگریہ کانٹوں کی پلیٹ میں پڑا ہے۔ جس سسٹم سے لڑنے کے لیے عمران خان نے ووٹ لیا ، اس سے لڑنا اتنا سہل ہرگز نہیں ، اگر کچھ کر گزرنے کی ان میں ہمت ہے تو وہ انھی گھاٹیوں سے گزر کر کرنا ہوگا۔ وہ کیا کہتے ہیں ؟ انھی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آئو؟ میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں دونوں بڑھی پارٹیوں کی کھینچا تانی نے بلاول کو پارلیمنٹ میں اپنی پہلی شاندر تقریر کرنے کاموقع اور ماحول فراہم کر دیا۔ کچھ شک نہیں یہ ایک شاندار تقریر تھی۔حالات وواقعات کا اس میں احاطہ کیا گیا تھا اور طنز کا بھر پور استعمال بھی۔ اس تقریر پر عمران خان نے ڈیسک بجا کر فراخ حوصلگی کا ثبوت دیا۔ تنقید سے اب پی ٹی آئی کو ڈرنا نہیں چاہئے۔ نہ تنقید کرنے والوں کو۔ بدستور انھیں دو احساس اب پیدا کر لینے چاہئیں، ایک یہ کہ انھیں بولنا نہیں سننا ہے، بولنا ان کے عمل کو چاہئے اوردوسرا یہ کہ ٹھہرنا نہیں چلنا ہے۔ جتنا بوجھ پی ٹی آئی نے اٹھا رکھا ہے ،دو گھڑی بھی یہ ٹھہری تو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ اگرچہ سیاست سے مایوسی اہل پاکستان کے رگ و ریشے میں اتر چکی اوراس میں قصور عوام کا بھی نہیں ، انھیں پامال ہی بہت کیا گیا ، اس کے باجود لیکن امید بہت سے دلوں میں بیدار ہوئی ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ لوگ نئے ضرور ہیں مگر ملکی مسائل سے ناواقف نہیں۔باتیں بہت ہو رہی ہیں ، یہ ہوتی رہیں گی۔ جہاں تک تجزیوں اور تبصروں کی بات ہے تو فی الحال عجلت میں کی گئی کوئی بھی بات فائدہ نہ دے گی۔کرکٹ کی طرح عمران بھی ناقابلِ پیش گوئی شخص ہے۔ ان کے متعلق اب تک اگر کوئی ایک تجزیہ درست ثابت ہوسکاہے تو وہ یہ کہ کوئی بھی تجزیہ درست ثابت نہیں ہوا۔ زندگی کے آگے بڑھنے کے اپنے ہی راستے اور طریقے ہیں۔ زندگی ہم سے مشورہ ضرور کرتی ہے، یہ فیصلہ مگر اپنا ہی صادر کرتی ہے۔ تجزیوں پر جائیے تو عمران خان کے لیے وزارت کی شیروانی سلی ہی نہ تھی۔ کسی مائی نے کوئی ایسا درزی جنا ہی نہ تھا، جو یہ شیروانی سی سکتا۔ تجزیوں پر جائیے تو عمران خان کے ہاتھ میں وزارت کی لکیر ہی نہ تھی۔ تجزیوں پر جائیے تو جنوبی پنجاب کی قسمت میں اتنا بھی بہت تھا کہ وہ لاہور آئیں تو وزیرِ اعلیٰ انھیں سلام کرنے کا وقت دے دے۔ اب یہ کس تجزئیے میں تھا کہ عثمان بزدار صاحب پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کے طور پر سامنے لائے جائیں گے۔یعنی ایک ایسا گھوڑاریس جیت جائے گا، جس پر کسی نے دائو ہی نہیں لگایا۔ ہر طرف سے بزدار صاحب کو کپتان کی نو بال قرار دیا جا رہا ہے۔ طرح طرح کے قیافے لگائے جا رہے ہیں۔ خیر خواہ بزدار صاحب کو جنوبی پنجاب کو ترقی دینے کے لیے وزارت دی جا رہی ہو،خواہ یہ کوئی عارضی انتظام ہو یا براہِ راست مرکز سے پنجاب پرگہری نظر رکھنے کی پالیسی۔ میرے لیے تو یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ جب لاہور کے شاندار پلوں سے گزر کر اہلِ سیاست تونسہ شریف کی کچی گلیوں میں وزیرِ اعلیٰ سے ان کے گھر ملاقات کے لیے جایا کریں گے توتب شاید انھیں بھی اندازہ ہو کہ پنجاب کہاں تک پھیلا ہوا اورکتنا محروم القسمت بھی ہے۔ حلف کے دوران جو چیزیں سامنے آئیں ،ان میں سے ایک یہ کہ حلف کی عبارت آسان کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ اردو پر توجہ دینے کی بھی۔ویسے تو خود تعلیم بھی ہماری توجہ کی متقاضی ہے۔محض پڑھنے والے ہی کی نہیں سننے والوں کی رعایت بھی ملحوظ رکھنی چاہئے ، تاکہ بات نہ صرف کہنا بلکہ سمجھنا بھی آسان ہو۔ اصل بات لیکن لفظ دہرانے کی نہیں ، ان کی روح پر عمل کرنے کی ہوتی ہے۔ کچھ الفاظ کے مشکل ہونے اور کچھ عمران کے جذباتی ہونے سے بھی لفظ لڑکھڑا گئے۔ صدر صاحب کا رویہ بہت لیا دیا سا رہا۔نئے وزیراعظم سے مصافحہ بھی نہ کیا اور مبارکباد بھی وہ نہ دے سکے۔حالانکہ آپ رسمی صدر تھے مگر رسما ًبھی یہ رسم نہ نبھا سکے۔ یہ ان کے منصب کے شایانِ شان نہ تھا۔خیر اب ادھر ادھر کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھنے کے بجائے بطور پاکستانی ہمیں آگے دیکھنا چاہیے۔