خوش کن بات یہ کہ اس مرتبہ یوم دفاع پاکستان کچھ زیادہ ہی پرجوش انداز میں منایا گیا‘ اس کی وجہ یقینا یہی ہے کہ پہلی مرتبہ عسکری قوت اور سول حکمران ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ آرمی چیف نے بجا طور پر واضح کر دیا کہ ملکی دفاع کے لیے سب یکجان ہیں اور عمران خاں کا کہنا کہ پاکستان کبھی کسی کی جنگ نہیں لڑے گا کس قدر حوصلہ افزا ہے۔ یوم دفاع کے موقع پر اپنے شہیدوں کو یاد بھی کیا گیا جس میں رقت آمیز منظر بھی دیکھنے میں آئے’’دل ہی تو ہے نہ سنگ وحشت درد سے بھر نہ آئے کیوں‘‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ ان مناظر نے ولولہ تازہ بھی پیدا کیا۔ اور اک عجب لہو رنگ اس تجدید عہد میں تھا جو سب کو سرشار کر گئی۔ بہرحال یہ جذبہ اور جنون آنے والے دنوں کے خدو خال تراشے گا اور ہم عزت و آبرو کے راستے پر گامزن ہوں گے۔ بات کرنے کو بہت سے موضوعات ہیں مگر فی الحال ہم دو خبروں پر بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان خبروں کا تعلق بھی ہماری تمہید سے جڑا ہوا ہے۔ صل بات تو یہ تھی کہ عمران خاں نے بتایا کہ 65ء کی جنگ میں جب وہ صرف بارہ سال کے تھے انہوں نے اپنے والد محترم کی بندوق اٹھائی اور جنگ لڑنے کے لیے کیمپ میں پہنچ گئے۔ ہمیں تو خان صاحب کی یہ ادا بہت بھائی کہ انہوں نے غالب کی طرح 12سال کی عمر میں شعر نہیں کہے بلکہ عملی طور پر گن اٹھا لی۔ مجھے آصف شفیع کا شعر یاد آ گیا: میرے اعدا سے کہو حد سے تجاوز نہ کریں یوں نہ ہو مجھ کو بھی تلوار اٹھانی پڑ جائے آپ ’’تلوار‘‘ کی جگہ ’’بندوق‘‘ لگا کر شعر کو پڑھ لیں‘ وزن نہیں گرے گا۔ ویسے بھی خان صاحب نے یہ کہہ کر دشمن کو ایک پیغام بھی دیا ہے کہ ان ہاتھوں میں بندوق بھی آ سکتی ہے۔ پٹھانوں کے حوالے سے تو ویسے بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے اسلحے کو زنگ نہیں لگنے دیتے۔مجھے رضی اختر شوق کا ایک خوبصورت شعر یاد آ گیا : مزاج میرے قبیلے کا دھیان میں رکھنا کہ تیر سوچ سمجھ کر کمان میں رکھنا بہرحال عمران خاں نے اچھا کیا کہ غیر روایتی انداز میں انہوں نے اپنی آپ بیتی سنا دی۔ دیکھا جائے تو پٹھان اور رائفل دونوں لازم و ملزوم ہے۔ ہم سب اپنے بچپن میں پٹھان بابا کی رائفل ہی سے غباروں کو نشانہ بنایا کرتے تھے۔ اپنے نشانے سے غبارے کا پھٹنا کس قدر خوش کن ہوا کرتا تھا دیکھا جائے تو عمران خاں بھی تو کئی غباروں سے ہوا نکالنے کے بعد بھی آگے آئے ہیں جو بھی ہے خان صاحب کا یہ پہلو انہیں ان کے ہمعصروں سے ممتاز کرتا ہے۔ جو لیڈر بندوق اٹھانا جانتا ہے وہ ناکام نہیں ہو سکتا۔ پہلے جو کامیاب حکمران تھے وہ گھوڑوں کی پیٹھ پر زندگیاں بسر کر دیتے تھے‘ ان کا یہی کاروبار زندگی تھا۔ مزے کی بات یہ کہ دوسری خبر بھی ہمارے پٹھان بھائی شاہد خان آفریدی کی ہے اور وہ بھی یوم شہدا کی تقریب میں آئے ہوئے تھے۔ کسی بزلہ سنج اور ستم ظریف کیمرہ مین نے انہیں اس وقت نشانے پر لے لیا جب وہ اپنے منہ میں نسوار رکھ رہے تھے۔ ان کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ نسوار کی گلوری کے سوا کچھ نہ تھا۔ لیکن کیا کیا جائے ’’اک گو نہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے‘‘ یہ دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ آفریدی عرف بوم بوم اتنے لمبے لمبے چھکے کیسے لگا لیتے ہیں۔ نسوار کے بعد تو بندہ خود بھی ہوا میں ہوتا ہے۔ ادھر شعیب اختر نے بھی کہہ دیا ہے کہ انہیں اور آفریدی کو سیاست میں ضرور آنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا خیال ہو کہ سیاست میں بھی تیز ترین باولر چل جائے گا اور ادھر چھکوں کی بھی ضرورت ہے۔ یا پھر انہوں نے سیاست کو بھی کھیل ہی سمجھ لیا۔ ویسے تو جسے کھیلنا آتا ہے وہ ہر جگہ ہی کھیل سکتا ہے۔ سیاستدان تو بعض مرتبہ قوم کے مستقبل سے بھی کھیل جاتے ہیں۔ ہمارا کھیل بھی تب سے تباہ ہوا جب سے اس میں سیاست آ گئی۔ شکر ہے اب نجم سیٹھی کی صورت میں سیاست کو نکال کر کرکٹ کو بحال کر دیا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ خان صاحب نے ٹھیک کہا کہ وہ فوج میں ہوتے تو ریٹائرڈ فوجی ہوتے کہ سیاست واحد شعبہ ایسا ہے جس میں کوئی سیاستدان ریٹائرڈ نہیں ہوتا بلکہ وہ جب تک ہاتھ پائوں سے رہ نہیں جاتا‘ چمٹا رہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس سیاست میں کسی ڈگری وگری کی ضرورت بھی نہیں۔ خود اسلم رئیسانی کے بقول اصلی اور جعلی ڈگری میں کوئی فرق نہیں ہوتا‘ ڈگری ڈگری ہوتی ہے۔ پچھلی ایک اسمبلی میں تو جعلی ڈگریوں والے اکثریت میں تھے۔ اس وقت بھی سیاست میں ٹاپ لائن میں سب کے سب ستر کے پیٹے میں ہیں۔ سیاستدان جوں جوں عمر رسیدہ ہوتا جاتا ہے توں توں وہ زیادہ کامیاب ہوتا جاتا ہے۔ لیجئے ہم نے دو خبروں پر اپنے تاثرات بیان کر دیے اور اب آخر میں خان صاحب سے گزارش ہے کہ وہ مہنگائی کی طرف بھی ذرا توجہ دیں۔ لوگ بجلی کی قیمتوں کے اضافے اور گیس کے مہنگا ہونے پر ایک مرتبہ پھر پریشان ہو گئے ہیں۔ اس سے ن لیگ والے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ خان صاحب نے کون سا نیا کام کیا وہ بھی تو مہنگائی ہی بڑھا رہے ہیں ہم تو توقع کر رہے تھے کہ آپ آ کر آسانیاں پیدا کریں گے۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے ۔ امیروں سے ٹیکس وصول کریں گے۔ میرا گمان تھا کہ آپ ڈارکا لگایا ہوا جگا ٹیکس ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کریں گے۔ آپ ذہن میں رکھیں کہ لوگوں کو آپ کے شب و روز سے واسطہ نہیں۔ ان کے گیس کے چولہے بند نہیں ہونے چاہئیں۔ پٹرول دو روپے سستا کر کے آپ نے کیا کیا سب کچھ مہنگا کر دیا ہے۔