شکر ہے خدا کا کہ انکار اقرار میں بدل گیا اور وزیر اعظم پاکستان کی مسند اور کنگری ہائوس کی حرمت کی لاج بھی رہ گئی۔ اب تو یقینا عمران خان کی روح کو بھی قرار آ گیا ہو گا کہ کراچی آمد پر وزیر اعظم عمران خان کو ملنے سے دو بار انکار کرنے والے فنکشنل مسلم لیگ اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے سربراہ حروں کے روحانی پیشوا پیر صاحب پگارا، پیر صبغت اللہ شاہ راشدی بالآخر اسلام آباد میں جا کر ان سے مل لئے۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ وزیر اعظم عمران خان کو بھی بادل نخواستہ کنگری ہائوس میں پیر صاحب پگارا کے حضور حاضری بھرنا پڑی تھی۔ یادش بخیر جب بڑے پیر صاحب پگارا حیات تھے تو وزیر اعلی اور وزیر اعظم کی پرچیاںکنگری ہائوس سے تقسیم ہواکرتی تھیں۔ اس زمانے میں وزیر اعلی ہائوس سندھ اور وزیر اعظم ہائوس میں مسند نشینی کے راستے کنگری ہاوس اور جی ایچ کیو سے ہوتے ہوئے سول لائنز کراچی اور شاہراہ دستور اسلام آباد تک پہنچتے تھے۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت کے خاتمے کے بعد 1988ء میں جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات کے بعد پیر صاحب پگارانے پھر کبھی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ اس کے باوجود وہ پاکستان کے سیاسی بادشاہ گر تھے اور ان کے اشارہ ابرو پر تخت اور بخت تقسیم ہوتے تھے۔پیر صاحب پگارا سید شاہ مردان شاہ دوم کسی سرکار دربار میں حاضری اپنے روحانی منصب کے شایان شان نہیں سمجھتے تھے، اس لئے سب حکمرانوں اور سیاستدانوں کو کنگری ہاوس آ کر بڑے پیر صاحب پگارا کے چرن چھونا پڑتے تھے۔بس دو بار ایسا ہوا کہ بڑے پیر صاحب پگاراجنرل ضیاالحق اور صدر جنرل پرویز مشرف کی دعوت پر ان سے ملنے شہر اقتدار گئے۔ پیر صاحب پگارا سید شاہ مردان شاہ دوم ستارہ شناس اورایک جملے اور ایک ہی چٹکلے میں بازی پلٹنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ جنرل ضیاالحق نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد الہی بخش سومرو کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔ صدرجنرل ضیا الحق کے پیر صاحب پگارا کے اعزاز میں عشایئے میں جب میزبان نے انہیں الہی بخش سومرو کے وزیر اعظم بنائے جانے کے فیصلے سے آگاہ کیا تو پیرصاحب پگارا نے برجستہ کہا کہ ’’ہمارا امیدوار توسندھڑی کا محمد خان جونیجو ہے‘‘۔پیر صاحب پگارا کے ایک جملے نے پانسہ پلٹ دیا۔ عشایئے سے پہلے الہی بخش سومرو وزیر اعظم تھے، کھانے کے بعد محمد خان جونیجو وزیراعظم کے منصب کے لئے چن لئے گئے۔ اس بات کی تصدیق جنرل کے ایم عارف نے اپنی کتاب’’ورکنگ ود ضیا‘‘ میں بھی کی ہے۔ پھر جب پیر صاحب پگارا، جنرل پرویز مشرف کی دعوت پر شہر اقتدار گئے توانہوں نے صدر جنرل پرویز مشرف کو متحدہ مسلم لیگ کے صدر بننے کا مشورہ دیاتھا لیکن سندھ کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف نے ان کی تجاویز کودرخوراعتنا نہیں سمجھا تو پیرصاحب پگارانے پھر کبھی ان سے اس موضوع پر بات نہیں کی۔پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب جنرل پرویز مشرف مسند اقتدار سے اتار پھینکے گئے تو بہت سال بعد 20مئی2015 ء کوبلاول ہائوس اور 90 کا گٹھ جوڑ توڑنے کے لئے جوڑ توڑ کے بادشاہ چوہدری شجاعت حسین کے ہمراہ کشکول لے کر مسلم لیگی دھڑوں کے انضمام کی خیرات لینے کنگری ہائوس پہنچے تھے تو موجودہ پیر صاحب پگارا نے انہیں خالی ہاتھ لوٹا دیا تھا۔ ایک آمر پر واجب الادا باپ کا حساب برسوں بعد بیٹے نے چکا دیا۔اس ملاقات میں جنرل پرویز مشرف ،چوہدری شجاعت حسین کے ہمراہ سینیٹر دلاور خان اور حلیم عادل شیخ بھی تھے۔ حلیم عادل شیخ ان دنوں تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔ تحریک انصاف کی سندھ اور بلوچستان سے متعلق پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے۔حکومت کا سندھ کی وفاق پرست جماعتوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک وفاق کی سلامتی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے 2018ء کے انتخابات میں اقتدار میں آکر کراچی کو پیرس بنانے کے بلند بانگ دعوے کئے لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان کی ترجیحات یکسر بدل گئیں، وہ سندھ سے کئے گئے اپنے وعدوں کو ہی نہیں مشکل وقت میں قربانی دینے والے اتحادیوں کو بھی فراموش کر بیٹھے۔ اٹھارہ مہینوں کے اقتدار میں وہ بہادر آباد کو خوش رکھ سکے اور نہ ہی کنگری ہائوس کو مطمئن کر سکے۔ عمران خان نے سندھ اور سندھ کے دارالحکومت کراچی سے بڑے بڑے وعدے کئے تھے لیکن جب کرسی پر بیٹھ گئے توچشم فلک نے ایک مختلف عمران خان کی جھلک دیکھی جس کی ترجیحات میں نہ تو کراچی کی ترقی کا کوئی منصوبہ تھااور نہ سندھ کے اتحادیوں سے کئے گئے وعدوں اور معاہدوں کی تکمیل کی کوئی سبیل تھی۔ کراچی نے انہیں کیا کچھ نہیں دیا۔کراچی نے ملک کو ڈاکٹر عارف علوی کی شکل میںصدردیااورکراچی کے فرزند عمران اسماعیل کو گورنرسندھ کے منصب تک پہنچادیا،فیصل واوڈا،علی زیدی سمیت کئی اہم شخصیات کومرکزی حکومت میں اہم منصب تک پہنچانے میں کراچی نے اپنا حصہ ڈالا مگروزیراعظم عمران خان نے بدلے میں کراچی کے زخموں پر مرہم رکھنا تک گوارا نہیں کیا۔کراچی کا سب بڑا مسئلہ ضروریات کے مطابق صاف پانی کی فراہمی اوراس کی منصفانہ تقسیم ہے۔اسی طرح نکاسی آب کے 40 برس پرانے نظام کو درست کرنا، شہر کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کی منصوبہ بندی اورکراچی سرکلرریلوے سمیت جدید ٹرانسپورٹ کی فراہمی دنیا کے اس ساتویں بڑے شہرکے لیے ناگزیرہے جبکہ سماج دشمن عناصر کی امن شکن سرگرمیاں بھی بے یقینی کو ہوا دے رہی ہیں لیکن وزیراعظم ان اہم معاملات سے لاتعلق ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی کارکردگی کا کیا رونا ،اس کے مسلسل اقتدار کے باوجود سندھ کا عام شہری بھوک اور پیاس سے جاں بہ لب ہے اور سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اس عالم میں تحریک انصاف نے بھی تو سندھ اور سندھ کے دارالحکومت کے لئے کچھ بھی تو نہیں کیا۔ کراچی کی طرح دیہی سندھ کو بھی تحریک انصاف کے دور حکومت میں کچھ بھی نہیں ملا۔ دیہی سندھ میں انسانی اور معاشی ترقی ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی،کسانوں کے مسائل ،موسمیاتی تبدیلی اورٹڈی دل کے حملوں سے فصلوں کے نقصان پر وفاق کا رویہ انتہائی معاوندانہ رہا ہے۔وفاق کی طرف سے شروع کیے جانے والے رفاہی پروگراموں احساس کفالت، صحت کارڈ سمیت دیگرامدادی پروگراموںمیں بھی سندھ کومکمل طور پرنظرانداز کرنا سندھ میںعمران خان کی عدم مقبولیت کا سبب بن گیا ہے۔ سندھ اور اس کے نمائندوںسے بے اعتنائی کے سبب بہادر آباد اور کنگری ہائوس سے ان کے فاصلے بڑھتے ہی چلے گئے اور ایم کیو ایم اور جی ڈی اے اور تحریک انصاف کے درمیان اعتماد کی فضا سازگار نہ رہ سکی۔ اب جب کہ بے اعتمادی کی ان پختہ دیواروں کو گرانے کے لئے وزیر اعظم عمران خان خود آگے بڑھے ہیں تو تحریک انصاف کی حکومت وہ ٹرین ہی مس کر چکی ہے جو انہیں سندھ میں سیاسی منزل مقصود پر پہنچا سکتی تھی۔کراچی وعدہ خلافوں کو کبھی معاف نہیں کرتااور یہی حال کنگری ہائوس کا ہے، کنگری ہائوس بھی سیاسی بازی گروں سے دوریاں رکھنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔ اب اگر وزیراعظم عمران خان اور پیر صاحب پگارا کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو یہ سیاسی طور پر خوش آئند بات ہے لیکن ان ملاقاتوں میں مسائل کے حوالے سے ابھی تک کوئی صورت گری سامنے نہیں آ سکی۔ اب جب سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے تو تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے امیدوار کیا منہ لے کر ووٹروں کے پاس جائیں گے، یہ سوال اس وقت بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔