وزیر اعظم عمران خان نے گیس صارفین سے وصول کردہ اضافی رقم واپس کرنے کے لئے 50کروڑ روپے کے فنڈز جاری کرنے کی ہدائت دیدی ہے۔ وزیر اعظم نے جون تک تمام اضافی رقم واپس کرنے کا کہا ہے۔ اووربلنگ کی ذیل میں آنے والی یہ رقم صارفین کو تین مراحل میں واپس کی جائے گی۔ وزارت تیل و گیس کے حکام کی طرف سے اچانک گیس نرخوں میں اضافے پر عوامی سطح پر احتجاجی ردعمل ظاہر ہوا تھا اور گیس نرخوں میں اضافے کی وجہ کے طور پر گیس حکام کی غفلت سامنے آئی تھی جو سردیوں میں گیس کی کھپت کو مدنظر رکھ کر بروقت گیس درآمد نہ کر سکے۔ وزیر اعظم کی جانب سے عام آدمی کے مسائل پر توجہ دینا خوش آئند ہے اور اس سے یہ تاثر مستحکم ہو گا کہ پی ٹی آئی کی حکومت عوامی مشکلات کا ازالہ کرنے میں سنجیدہ ہے۔ پاکستان میں عوام اچھی حکمرانی کے منتظر ہیں۔ سابق حکمران جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو متعدد بار اقتدارکا موقع ملا۔ تبدیلی کی عوامی خواہش ہر بار پہلے جیسے لوگوں کو پارلیمنٹ میں پہنچانے پر کچلی جاتی رہی۔ دونوں جماعتوں نے حکمران طبقات کے مفادات کو تحفظ دیا۔ غریب اور مفلس کے نصیب میں سکھ کے چند پل نہ آئے۔ ریاست کی طاقت مٹی میں دبی ریت کی طرح سرکتی رہی۔ طاقتور قانون شکن بھی ہو تو معاشرہ جنگل بن جاتا ہے۔ پاکستان کو جان بوجھ کر جنگل بنایا گیا تاکہ چند مخصوص حلقے وسائل کا خون چوستے رہیں۔ لاہور‘کراچی‘ راولپنڈی‘ کوئٹہ اور پشاور جیسے بڑے شہروں کی حالت زار بتاتی ہے کہ حکمرانوں سے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوا۔ صحت کی سہولیات یا تو سرے سے موجود نہیں اگر کہیں کوئی صحت کا مرکز ہے تو وہاں ڈاکٹر نہ دوا۔ سکولوں کے اندر سیاسی افراد نے مویشی باندھ رکھے ہیں۔ چار دیواری کے بغیر بچے کھلی جگہوں پر زمین پر بیٹھ کر علم حاصل کر رہے ہیں جو نسل جوان ہوتی ہے وہ بے روزگاری کا دکھ اٹھائے پھرتی ہے۔ زندگی کے کسی شعبے میں کارکردگی نام کی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ ہر جگہ ناانصافی ‘ بدعنوانی‘ اقربا پروری اور بدانتظامی کا راج ہے۔ یہی وہ ماحول ہے جس سے نجات کے لئے عوام نے تین تین چار چار بار حکمران رہنے والی جماعتوں کو مسترد کر کے تحریک انصاف کو موقع دیا کہ وہ تبدیلی کے خواب کی عوام دوست تعبیریں ڈھونڈ لائے۔ جولائی2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی کا اعلان ہوتے ہی وزیر اعظم عمران خان نے پہلے ایک سو روز کا ایجنڈہ عوام کے سامنے رکھا۔ اس عرصے میں مختلف مسائل کو حل کرنے کے لئے ماہرین پر مشتمل ٹاسک فورسز بنائی گئیں۔ وزیر اعظم نے سب سے پہلے معاشی حالت میں سدھار لانے اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھا کر روپے پر آنے والے دبائو کو کم کرنے کے لئے چارہ جوئی کی۔ چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے دست تعاون بڑھایا۔ اس تعاون کے باعث پاکستان آئی ایم ایف کی ناروا شرائط تسلیم کرنے سے بچ گیا۔ حالیہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ گزشتہ سات ماہ کے دوران پاکستان کی برآمدات میں قابل قدر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یقینا معاشی سدھار کے امور مثبت رخ پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے عوام دوست فیصلوں کو پاک بھارت کشیدگی سے دھچکا پہنچا ہے۔ تاہم سیاسی و عسکری قیادت نے ملک کو درپیش سکیورٹی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے موثر اور بروقت اقدامات کئے جن کے نتیجے میں خارجہ سطح پر پاکستان کی کمزوریوں کا خاتمہ ممکن ہو سکا۔ وزیر اعظم عمران خان کا ملک اور عوام کے لئے اخلاص قابل تحسین ہے۔ پاکستان کے عوام نے سابق حکمران جماعتوں کو مسترد کر کے اس لئے ووٹ دیا کہ انہیں امید ہے کہ وہ ان کی زندگی میں آسانیاں لے کر آئیں گے۔ سوموار کے روز وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات میں جب اراکین صوبائی اسمبلی‘ وزراء اور وزیر اعلیٰ کی مراعات میں اضافہ پر مایوسی کا اظہار کیا تو اس کے پس پردہ یہی امر تھا کہ جب تک ملک کی عمومی معاشیات بہتر نہ ہو جائیں اور عوام کی زندگی میں سہولت نہ آ جائے منتخب نمائندے مزید مراعات وصول نہ کریں۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو تاکید کی کہ وہ عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے کام کریں۔ کفایت شعاری سے کام لیا جائے اور انتظامی معاملات وزیر اعلیٰ اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ روائتی طور پریہ مسلم لیگ ن کا مرکز رہا ہے۔ یہاں تبدیلی کی خواہش کے پس پردہ قوتیں وہ محروم طبقات ہیں جن کی زندگی کے دکھ مسلم لیگی دور اقتدار میں کم نہ ہو سکے۔ وزیر اعلیٰ کے فیصلے اور ان کی صوبائی حکومت کی کارکردگی براہ راست تحریک انصاف کی کارکردگی کا آئینہ ہو گی اس لئے وزیر اعظم کی ہدایات برمحل تصور کی جا سکتی ہیں۔ بعض حکومتی فیصلوں کو دیکھ کر یہ تاثر ابھرتا رہا ہے کہ افسر شاہی میں ایسے طاقتور لوگ سرگرم ہیں جو حکومت سے غلطیاں کرواتے ہیں۔ ساہیوال میں ایک معصوم خاندان پولیس کے ہاتھوں مارا گیا۔ یہ معاملہ جس طرح ہینڈل کیا گیا اس سے فیصلہ سازی کی حکومتی صلاحیت کو مشکوک بنایا گیا۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا۔ گیس کے نرخوں میں اضافہ کی عجیب و غریب تاویل پیش کی گئی۔ شروع میں وزیر اعظم عمران خان نے ہر قسم کے بیانات جاری کئے جن کے مضمرات کا اندازہ کر کے یہ سلسلہ کم کر دیا گیا۔ حکومت کو یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ وہ روائتی ووٹ سے منتخب نہیں ہوئی بلکہ ان لوگوں نے اس پر اعتماد کیا ہے جو نظام کی افادیت سے مایوس ہو کر گھر بیٹھ جاتے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے عوامی مسائل پر توجہ مرکوز رکھی تو بلا شبہ تبدیلی کا سلسلہ عوام کے بلند معیار زندگی اور ریاست کے استحکام کی راہ پر چل نکلے گا۔