آج کل عوامی نمائندے جس حلقے میں ووٹ مانگنے جاتے ہیں وہاں عوامی عدالتیں لگ جاتی ہیں۔ یہ عدالتیں اپنے نمائندوں سے بس ایک سوال پوچھتی ہیں۔ ’’چن کتھاں گزاری آ ای رات وے‘‘ بیچارے ستم زدہ ‘ بے بس ووٹر جس رات کی بابت پوچھتے ہیں وہ طویل پانچ برس پر محیط لمبی اور کالی رات تھی۔ وہ نمائندوں سے پوچھتے ہیں حضور آپ تو بڑے وعدے کر کے گئے تھے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کی نوید سنا کر گئے تھے اور اب آپ پانچ برس بعد آئے ہیں۔ اس دوران بندہ پرور ہم پہ کیا گزری آپ کیا جانیں؟ لیاری کراچی کا انتخابی حلقہ پیپلز پارٹی کا موروثی حلقہ ہے مگر گزشتہ پانچ سالوںمیں حکومت کیا سے کیا ہو گئی اس کا اندازہ لگانے میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے ماہر بلاول بھٹو کے والد آصف علی زرداری کے عرفان سے بہت بڑی بھول ہوئی ہے۔ اتوار کے روز اپنی انتخابی مہم کے آغاز میں بلاول اپنے قافلے کے ساتھ وہاں پہنچے تو ان کا سنگباری سے استقبال کیا گیا حتیٰ کہ خواتین خالی گھڑوں اور مٹکوں کے ساتھ چھتوں پر چڑھ گئیں اور ہر طرف ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا۔ پانی دو‘ پانی دو بلاول بھٹو زرداری 50برس تک ذوالفقار علی بھٹو کے دیے ہوئے نعرے سے کام چلانے گئے تھے۔ بھٹو نے تقریباً 50سال پہلے 1970ء کی طویل و طوفانی انتخابی مہم کے دوران یہ نعرہ دیا تھا۔ مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان اس نصف صدی کے دوران پیپلز پارٹی کئی بار برسر اقتدار آئی مگر وہ انسانوں سے روٹی چھینتی تو رہی مگر یہ نعرہ شرمندہ تعبیر نہ ہوا اور نہ اس نعرے کو بار بار دوہرانے پر پیپلز پارٹی کے قائدین شرمندہ ہوئے۔ اب 50برس بعد بلاول بھٹو نے اس نعرے میں ہوا کا رخ دیکھ کر تھوڑی سی تبدیلی کی تھی اور اب ان کا نعرہ تھا: لے کے رہے گا ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان وہ یہ نعرہ لے کر لیاری میں داخل ہوئے تھے مگر وہاں عوامی عتاب دیکھ کر وہ یہ نعرہ لگانے پر مجبور ہو گئے ’’میں کراچی کے سمندر کو میٹھا کر دوں گا‘‘ دنیا تو کئی دہائیوں سے سمندر سے کھارے پانی کو ڈی سیلی نیشن پلانٹس کے ذریعے میٹھا کر رہی ہے۔ ساری دنیا میں 18,426ایسے پلانٹس موجود ہیں جو نمکین سمندری پانی کو میٹھا کرکے اور اپنے شہریوں کی پیاس بجھاتے ہیں۔ سب سے بڑا پلانٹ راس الخیمہ سعودی عرب میں لگایا گیا ہے جو ریاض اور اس کے گردو نواح کی تقریباً پچاس لاکھ آبادی کو آب شیریں مہیا کرتا ہے۔ اسی طرح جدہ‘ دمام اور پنبع وغیرہ میں بھی پلانٹ لگائے گئے ہیں دنیا میں صرف سعودی عرب ہی نہیں متحدہ عرب امارات ‘ سپین‘ قبرص ‘ مالٹا ‘ پرتگال حتیٰ کہ بھارت تک میں واٹر پلانٹس لگائے گئے ہیں ایک دلچسپ انکشاف کروں‘ سب سے زیادہ واٹر پلانٹس سعودی عرب میں ہیں اور سعودی عرب کی پانی کی زیادہ ضرورت سمندری پانی ہی سے پوری ہوتی ہے۔ ان پلانٹس میں کام کرنے والے اکثر انجینئروں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ جی ہاں!اس پاکستان سے جس کے اقتصادی دارالحکومت کے تقریباً دو کروڑ انسان پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ روشنی دینے والے کو کم سے کم اک دیا چاہیے اپنے گھر کے لیے جناب عمران خان اوور سیز پاکستانیوں کے پاس موجود دیا بلکہ الہ دین کا چراغ جلانے کی بات کرتے رہتے ہیں مگر وہ گزشتہ پانچ برس کے دوران اوورسیز پاکستانیوں کے وژن کی کوئی جھلک دکھا سکے اور نہ ہی ان کے پوٹینشل کا کوئی جزو خیبر پختونخواہ میں لا سکے۔ ابھی کچھ مدت پہلے مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کے وزیر مالیات مفتاح اسماعیل نے بھی کراچی کے تشنہ لب مکینوں کو خوشخبری سنائی تھی کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے کراچی میں کھارے پانی کو میٹھا کرنے کے پلانٹس لگائیں گے اور یہ مسئلہ حل کرنے کا اعزاز لیں گے بیچارے کراچی والے تو یہ مسئلہ حل کرنے والے کو اعزاز دینے کو تیار ہیں مگر کوئی وعدوں اور باتوں سے آگے تو بڑھے۔ اس وقت پاکستان کی ہر بڑی سیاسی جماعت داخلی خلفشار کی زد میں ہے مگر وہ اس بدنظمی کا الزام دوسروں کے سر پر تھوپ دیتی ہے۔ مسلم لیگ ن کا المیہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے بیانیے سے میاں شہباز شریف کواتفاق نہیں مگر شہباز شریف خاندانی و پارٹی اتحاد کی خاطر خواہی ناخواہی اس بیانیے کے ساتھ گھسٹتے رہے مگر اب دو تین روز قبل انہوں نے جو بیانیہ فلوٹ کیا ہے وہ میاں نواز شریف کے بیانیے کی مکمل نفی ہے۔ میاں شہباز شریف نے کہا کہ خان صاحب اور معاشی امور پر جرنیلوں سے مشورہ ہو گا ان کے برادر اکبراینٹی اسٹیبلشمنٹ، اینٹی جوڈیشری مہم کے چمپئن بننے کو اپنی لیڈر شپ کی معراج سمجھ رہے تھے: اب کس کا بیانیہ چلے گا؟ گزشتہ چند روز سے تو یہ تاثر مل رہا تھا کہ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم ابھی سٹارٹ ہی نہیں ہوئی۔ انتخابات کے بارے میں ن لیگ کے کنفیوژن پر بھی باتیں ہوئیں۔مہم چلانے والے لندن بیٹھے ہیں مگر اب تازہ ترین خبریں ہیں کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز انتخابی مہم کی قیادت کرنے پاکستان واپس آ رہے ہیں۔ اللہ بیگم کلثوم نواز کو صحت عطا کرے۔ آمین پی ٹی آئی بھی داخلی انتشار و خلفشار کا بری طرح شکار رہی ہے اور ابھی تک خود عمران خان کا کہنا یہ ہے کہ میری بیوی نے گزشتہ پندرہ دنوں میں مجھے بوڑھا ہوتے دیکھا۔یہ ساری پریشانی ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی بنا پر تھی، پارٹیوں کے اندر یہ داخلی انتشار کیوں ہے؟ یہ انتشار اس لیے ہے کہ مسلم لیگ ن ہو یا تحریک انصاف یا کوئی اور بڑی پارٹی ان کے اندر سچی لیڈر شپ کا فقدان اور بدترین بحران ہے۔ مقبولیت کے زعم میں مبتلا قائدین اپنی انا کے غباروں میں اتنی ہوا بھر دیتے ہیں کہ غبارے پھٹ جاتے ہیں اور خلفشار دنیا کے سامنے آ جاتا ہے۔ ایک لیڈر کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ مستقبل کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگائے ‘ ناراض لیڈروں کو ہی نہیں ناراض کارکنوں کو بھی منائے‘ کسی بھی پارٹی کی سب سے بڑی قوت اس کا داخلی اتحاد ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف نے چودھری نثار علی خان کی قدرے کڑوی مگر سچی تنقید کو برداشت کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے ہمدرم دیرینہ اور گرم سرد چشیدہ سیاسی ساتھی کو ضائع کر دیا اور مریم نواز کے وٹس ایپ اور سوشل میڈیا گروپ کی جذباتی و غیر حقیقی منصوبہ بندی کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ عمران خان تو قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا رہنما اور سیاسی قائد سمجھتے ہیں مگر انہوں نے اپنی سیاسی و شخصی زندگی پر قائد اعظم کے اصول بالکل لاگو نہیں کیے۔ یہ میڈیا کا اعجاز ہے یا سوشل میڈیا کا کمال کہ ووٹروں نے جگہ جگہ ‘ شہر شہر اور قریہ قریہ احتسابی عوامی عدالتیں لگا لی ہیں۔ ان عدالتوں میں عوام یہی پوچھ رہے ہیں کہ پنجاب میں گزشتہ دس برس تک مسلم لیگ ن کی حکومت رہی اور سندھ میں بھی اتنے ہی عرصے تک پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت رہی مگر نتیجہ کیا نکلا؟ پنجاب میں پینے کا صاف پانی نہیں‘ بہت سے علاقوں میں سرے سے پانی ہی نہیں۔ عوام کے علاج کے لیے ہسپتال نہیں‘ ہسپتال ہیں تو ادویات نہیں اور اگر کہیں ادویات ہیں تو انتہائی مضر صحت ہیں‘ سکولوں میں کمرے نہیں ٹوائلٹ نہیں‘ بجلی نہیں اور بہت سی جگہوں پر تو پانی بھی نہیں۔ یہی حال سندھ کا ہے وہاں تقریباً دو کروڑ انسانوں کے لیے پینے کا صاف پانی نہیں‘بجلی نہیں۔ کراچی شہر میں بارہ بارہ اور چودہ چودہ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے ۔ روشنیوں کا شہر تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ جگہ جگہ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور بارشوں کے دوران یہی ٹوٹی سی سڑکیں موت کے کنویں بن جاتی ہیں۔ جن عوامی عدالتوں کا میاں نواز شریف بہت چرچا کیا کرتے تھے اب یہ عدالتیں روبہ عمل آ چکی ہیں اور اپنا کام کر رہی ہیں۔ حلقہ این اے 170بہاولپور میں انتخابی مہم کے دوران ن لیگی سابق وفاقی وزیر عوامی عدالت کے نرغے میں آ گئے۔ ووٹر نے بلیغ الرحمن کے سامنے شکایات کے انبار لگا دئیے۔ ووٹرز نے سوال کیا کہ 5سال تک آپ کہاں تھے؟ اب ووٹ کیوں مانگنے آئے ہو؟ 10سال کے وعدوں کے باوجود انسانوں کے مکانوں کے نہیں ایک دو قبرستانوں کے لیے بھی جگہ فراہم نہ کی‘ اسی طرح ن لیگی رہنما اور سابق وزیر مملکت برائے خزانہ کو اپنی ایک کارنر میٹنگ کے دوران شدید قسم کے عوامی احتساب و احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریک انصاف کے بھی سابق وزراء اور ارکان اسمبلی کو عوامی باز پرس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ عوامی عدالتیں باعث برکت بھی ہیں اور باعث نجات بھی۔ شرط یہ ہے کہ اس بار عوام آزمودہ بددیانت لوگوں کو ووٹ نہ دیں اور ذات برادری سے بلند ہو کر صرف دیانت و امانت کی بنیاد پر نیک نام امیدواروں کو ووٹ دیں۔ جتنا عوامی احتساب کا کلچر پروان چڑھتا جائے گا اتنا ہی عوامی نمائندوں کی کارکردگی بہتر ہوتی جائے گی۔ عمران خان درست کہتے ہیں کہ سمندر پار پاکستانی وطن عزیز میں معاشی و معاشرتی اور تعلیمی و فلاحی انقلاب برپا کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ خان صاحب خود سنجیدہ ہوں اور اپنی صفوں کے ان لوگوں کو عوام کے سامنے پیش کریں جو مختلف شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ اوورسیز سرمایہ کاری کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔سازگار ماحول سے کیا مراد ہے؟ امن و امان اور کرپشن فری ورکنگ اوورسیز پاکستانیوں میں سے اکثریت اپنے وطن کی مانگ میں سندھور بھرنے کو پابہ رکاب بیٹھی ہے: نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے، مختصر یہ کہ عوام ذات برادری سے بلند ہو کر ناقص کارکردگی پر امیدواروں کا بھر پور احتساب کریں مگر تشدد سے ہرگز کام نہ لیں۔ یقینا احتسابی عوامی عدالتیں 2018کے انتخابات میں بھر پور کردار اداکریں گی۔