عید کی آمد آمد ہے۔گلیوں میں قربانی کے جانوروں کی رُونمائی کا سلسلہ جاری ہے ،گرمی کی شدت کے باوجود مویشی منڈیوں اور بازاروں میں گہما گہمی کا سماں ہے۔ گہما گہمی کی فضا سے یوں محسوس پڑتا ہے کہ کورونا وباء کا خوف لوگوں کے دلوں سے مکمل طورپر نکل چکا ہے۔دوسری طرف حکومت پنجاب کو کورونا وباء کے پھیلائو کے پیشِ نظر پانچ اگست تک مارکیٹ بندرکھنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔مگر بعض شہروں کے کچھ حصوں میں تاجر برادری نے اس فیصلے کی دھجیاں بکھیر کررکھ دیں۔حکومت پر تنقید کی گئی کہ کاروبار کے دِنوں میں مارکیٹ بند کرنے کا فیصلہ کرکے کاروباری طبقہ کا نقصان کیا گیا ہے۔دُکانیں بندکروانے کے لیے مختلف شہروں میں تاجروں اور پولیس میں ہاتھا پائی بھی ہوئی،پولیس دُکانیں بند کروانے پہنچتی تو دُکاندار اُن کو دیکھ کر دُکانیں بند کردیتے ،جب پولیس چلی جاتی تو دوبارہ کھول لیتے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ جب گذشتہ عید پر کاروبار کھلے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ،تو اُس وقت یہ تنقید کیوں کی گئی تھی کہ حکومت نے لوگوں کی صحت کا خیال نہیں رکھا اور کاروبار کھول دیے؟اب جب پنجاب حکومت نے لاک ڈائون کا فیصلہ کیا تو کیوں کہا جارہا ہے کہ جان بوجھ کر لوگوں کی معیشت کا نقصان کیا جارہا ہے؟شہریوں کو چاہیے کہ حکومت کے فیصلوں کا احترام کریں۔حکومت جتنی بھی کمزور کیوں نہ ہو وہ اپنے لوگوں کو جان بوجھ کر کسی مشکل میں نہیں ڈالتی۔وزیرِ اعظم عمران خان قبل ازیں سمارٹ لاک ڈائون کرواچکے تھے۔سمارٹ لاک ڈائون کے ذریعے اُن علاقوں میں لاک ڈائون کیا گیا جہاں کورونا کے مریض زیادہ سامنے آرہے تھے۔دوسرے سارے علاقے کھلے رکھے گئے تاکہ لوگوں کی معیشت پر فرق نہ پڑے۔سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی کامیاب رہی ۔تاہم حکومت کی طرف سے عوم کو ہمہ وقت کہا جاتارہا ہے کہ کورونا کے پھیلائوکو روکنے میں حکومت کا ساتھ دیں اور احتیاط کو ملحوظ رکھیں۔یہی وجہ تھی کہ ایس اوپیز بنائے گئے اور اِن کے تحت کاروبارِ حیات کو کھولا گیا ۔وزیرِ اعظم کی طرف سے عوام سے مسلسل کہا گیا کہ اجتماعی قربانی کریں،انفرادی قربانی کی طرف نہ جائیں،تاکہ وائرس کے پھیلائو کو روکا جاسکے۔ماہرین بھی یہی کہتے ہوئے پائے گئے کہ انفرادی نہیں اجتماعی قربانی کی جائے تاکہ اس وباء کے خطرے کو کم سے کم کیا جاسکے ۔ قربانی کے جانور وں کی خریدوفروخت کے حوالے سے بھی احتیاط کی تاکید کی گئی ،مگر اس ضمن میں احتیاط کا دامن چھوڑ دیا گیا۔زیادہ تر مقامات پر ماسک تک نہ پہنے گئے ۔مساجد کی دیواروں پر جگہ جگہ یہ لکھا ہوا ملا کہ اجتماعی قربانی میں حصہ ڈالنے کے لیے رابطہ کریں۔لیکن گلی محلوں میں بکروں کی رُونمائی سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے انفرادی قربانی کو ہی ترجیح دی ہے ۔عید قربان کی چھٹیوں کو مختصر رکھ کر حکومت نے ایک عمدہ فیصلہ کیا۔اب عوام پر ہے کہ عید پر کس حد تک احتیاط کرتے ہیںعید الفطر پر احتیاط نہ کرکے ،ہم نے بھاری قیمت چکائی ہے ۔اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کورونا وباء کی منتقلی مقامی سطح پر سوفیصد ہوئی ،اس عرصہ میں روزانہ کی بنیاد پر لوگوں نے اپنے عزیزواقارب کے جنازے اُٹھائے۔ایک وقت ایسا آیا تھا کہ یوں محسوس پڑتا تھا کہ پاکستان میں کورونا وباء کی تباہی بڑے پیمانے پرہو گی ۔ حکومت نے بھی جولائی کے آخری اور اگست کے پہلے ہفتے کو خطر ناک قراردیا تھا،مگر خد اکی خصوصی رحمت سے یہ وباء دَم توڑتی محسوس ہوئی ۔ایکٹوکیسز روزبہ روز کم پڑتے چلے گئے،اموات کم ہوتی چلی گئیں اور بڑی تعداد میں لوگ صحت یاب ہو کر ہسپتالوںسے گھروں کو جانے لگے۔آج پاکستان اس وباء سے ایک لحاظ سے کافی حد تک جان چھڑواچکا ہے۔کورونا وباء کے پھیلائو کو جب دُنیا اور اپنے ہمسائے بھارت میں دیکھتے ہیں تو صورتِ حال بہت خوف ناک دکھائی دیتی ہے۔عالمی ادارہ صحت کہہ چکا ہے کہ کورونا وائرس ایک بڑی لہر ہے اس کو عام وباء نہ سمجھا جائے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ وائرس انفلوئنزا کی طرح نہیں جو موسمی رجحانات کی پیروی کرے،یہ کسی بھی موسم میں پھیل سکتا ہے۔ڈبلیو ایچ او نے خبر دار کیا کہ وائر س ایک بڑی لہر بننے جارہا ہے ،ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اس کو یہی ختم کردیا جائے ۔تاہم اس میں کئی اُتار چڑھائو آئیں گے اور اس وقت یہ دُنیا کے کئی ممالک میں دوسری لہر کے طورپر تباہی پھیلانے کی طرف گامزن ہے۔اسی طرح جب بھارت میں اعدادوشمار کا جائزہ لیا جاتا ہے تو روزانہ کی بنیاد پر چالیس سے پچاس ہزار نئے کیسز رجسٹرڈ ہورہے ہیں۔ وطنِ عزیز میں یہ بڑا نازک مرحلہ ہے۔عید ِقربان میں گوشت وافر مقدار میں ہوتا ہے تو ہر جگہ محفلیں سجتی ہیں ۔اگر اس بار بھی عید کو گزشتہ عیدوں کی طرح منایا گیا تو کورونا کے پھیلائو کو کوئی نہیں روک پائے گا اور اس کے نتیجے میں خدانخواستہ بھاری قیمت چکانا پڑسکتی ہے۔اس عید پر خصوصی احتیاط کی ضرور ت ہے۔گوشت کو تقسیم کرتے وقت دستانوں کا استعمال بہت ضروری ہے ۔ماسک لگا کر اوردستانے پہن کر قربانی کی جائے اور گوشت کو تقسیم کیا جائے اور باربار ہاتھوں کو دھویا جائے۔معالجین کا خیال ہے کہ اگر ایک کورونا کا مریض گوشت کو ہاتھ لگاتا ہے تو وائرس گوشت پر ٹھہر سکتا ہے ۔لہٰذا دستانوں کا استعمال دوسرے کو بچا سکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ گوشت کو اچھی طرح پکانا ضروری ہوگا۔اگر اس عید پر احتیاط نہ کی گئی تو آنے والے دِن اس لحاظ سے بھی مشکل ثابت ہوسکتے ہیں کہ عید کے بیس دِن بعد محرم الحرام شروع ہو جائے گا اور اس کے پہلے دس دِن مجالس اعزا کا اہتمام کیا جاتا ہے ،یوں یہ اجتماعات کورونا وباء کو پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ضرورت اس اَمر کی ہے کہ زندگی کو اہمیت دی جائے اور زندگی کی تمام سر گرمیاں جن کو پورا کرنے سے کسی بڑے نقصان کا احتمال ہو،گریز کیا جائے۔ ہم نے عید الفطر کے بعد دیکھا کہ ہماری غلطیوں کی بدولت صحت کے نظام پر شدید دبائو پڑا،ہمیں اُن غلطیوں سے سیکھنا ہوگا۔وزیرِ اعظم کے مطابق’’یہ عید سادگی سے منائی جائے‘‘