لیجئے جناب‘ صدارتی نظام کا غبارہ پھر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہر چھ مہینے بعد اس باسی کراہی میں ابال آتا ہے لیکن اس بار کچھ غبارہ زیادہ پھولا نظر آتا ہے۔ کوئی صدر ایوب کے گن گا رہا ہے کہ ڈیم بنائے تو کوئی ضیاء الحق کے کہ افغان جہاد کیا‘ سوویت یونین کو ختم کردیا اور سب مل کر جمہوریت کی مذمت کر رہے ہیں کہ کرپٹ ہوتی ہے‘ بکواس نظام ہے۔ لگتا ہے یہ عین پرست ملوکیت نواز حالیہ ہائبرڈ نظام کی بے مثال برکات کو کافی نہیں سمجھتے‘ ہل من مزید کا سوال ہے۔ ملک کو 70ء وار کی دہائی کا صومالیہ بنانے کی نیک خواشہات چین نہیں لینے دے رہیں۔ معاملہ کچھ یوں بھی ہوا کہ ایک ادارے نے مراعات یافتہ طبقے پر ضرب لگائی۔ ریسٹورنٹ اور گالف پارک کے نام سے وہ عظیم الشان قبضے ختم کرنے کے انقلاب انگیز فیصلے دے رہے۔ ملوکیت پرستوں کو خطرے کی گھنٹی صاف سنائی دینے لگی‘ عشرت کدوں میں خوف کے سائے پھیل گئے۔ حضرت سنئے تو‘ ڈیم بنانے کا کریڈٹ ایوب خان کو مت دیجئے۔ عالمی ملک کے حکم پر یہ ڈیم بنے۔ اس زمانے میں آنے والے زمانے کو بھانپا جا رہا تھا کہ خوراک کی قلت ہوئی چنانچہ ڈیم بنائو مہک چلی اور صرف ہمارے ہاں نہیں‘ ترکی‘ ایران‘ مصر‘ سوڈان سمیت ایشیا افریقہ کے بہت سے ملکوں میں ڈیم بنوائے گئے‘ نئے نئے زرعی بیج بھی تیار کئے گئے تاکہ فی ایکڑ فصل زیادہ ہو۔ ایوب خان کے اصل کارنامے کچھ اور تھے۔ تین دریا بھارت کو‘ اڈے سی آئی اے کو اور معیشت آئی ایم ایف کو دی۔ غربت پھیلائی‘ مڈل کلاس ختم کی‘ دولت کا ارتکاب کیا‘ چھوٹے صوبوں کو کچلا اور مسلا۔ ایوب خان نے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی‘ یحییٰ خان نے عظیم تعمیراتی منصوبہ مکمل کیا۔ ضیاء الحق نے کیا کیا ،جو امریکہ کا مفاد تھا۔ سچ کہئے‘ اگر امریکہ کا مفاد نہ ہوتا تو ضیاء الحق وہ کام بھی نہ کرتا؟ سوویت یونین کو ضیاء الحق یا افغان جہاد نے نہیں‘ اس کی تباہ حالت معیشت اور امریکہ نے ختم کیا اور اسے ختم ہونا ہی تھا۔ ایوب کی طرح اس کے چہیتے بھی رات کے اندھیروں میں کھرب پتی ہو گئے جیساکہ اب پھر ہورہے ہیں۔ مشرف نے پاکستان کو امریکہ کی گود میں ڈال دیا‘ منشیات کے علاوہ نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات بھڑکائے‘ دہشت گردی کو فروغ بلکہ جنم دیا اور ایک لاکھ کے قریب پاکستانیوں کو قتل کروایا۔ کل ملا کے صدارتی نظاموں نے رنگارنگ مافیائوں کا تانا بانا بن کر ملک کو اس میں جکڑ ڈالا۔ جمہوریت والوں نے کیا کیا؟ سنانے پر آئے تو سن پائو گے نہ گن پائو گے‘ بس بھنا کر رہ جائو گے۔ جو کچھ ہے اہل جمہوریت کی دین ہے۔ صدارتی نظام نے تو بس ملک کا نقشہ بدلا اور حلیہ بگاڑا۔ چلو‘ ایک بار پھر سر پھوڑ کر دیکھ لو‘ صدارتی نظام نہیں لا پائو گے۔‘ لکھ لو‘ یہ چیلنج ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایوان انصاف سے ریمارکس آئے ہیں کہ صوبہ پختونخوا کے ہسپتالوں میں عام آدمی کے لیے کوئی سہولت نہیں۔ لگتا ہے کہ یہ فائیو سٹار ہوٹل بن جائیں گے۔ یاد پڑتا ہے کہ پختونخوا کے ہسپتالوں کی حالت زار پر ایسے ہی ریمارکس کچھ عرصہ پہلے بھی آئے تھے اور ریکارڈ لکھیں تو پی ٹی آئی کی پہلی حکومت بننے کے بعد سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کی دہائی مچنا شروع ہو گئی تھی اور ایسی خبریںعام تھیں کہ صوبے کے لوگ علاج کے لیے پنجاب آ رہے ہیں۔ اب تو خیر سے پنجاب کی حالت بھی انصاف سرکار نے پختونخوا کے ہم پلہ کردی ہے۔ لے دے کے سندھ بچا ہوا ہے جہاں تھوڑی بہت سہولیات دستیاب ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی مہربانی سے وہاں بھی پی ٹی آئی کی سرکار آ گئی تو۔ ٭٭٭٭٭ دو تین روز ہوئے ہیں‘ تحریک انصاف کے سخت گیر حامی سمجھے جانے والے ٹی وی پرسن نے ایک ٹویٹ کیا کہ صحت کارڈ پر ایک مریض کا جو آپریشن نجی ہسپتال نے مبلغ سات لاکھ روپے میں کیا‘ وہی آپریشن بہاولپور کارڈیالوجی نے محض بیس ہزار روپے میں کردیا۔ صحت کارڈ میں یہی طلسماتی گھنڈی ہے۔ بہت سے امراض کا علاج تو اس کارڈ پر ہے ہی نہیں اور جن امراض کا ہے ان کے علاج کی نوبت ایک سال کے دوران میں صرف ایک یا زیادہ سے زیادہ دوبار ہی کر سکتی ہے۔ گلے کی انفیکشن کا علاج اس کارڈ پر بھی نجی ہسپتال سے کرائیں تو بہت سستا ہی ہوا تو چار پانچ لاکھ سے کم کما لیے گا۔ پھر کوئی مسئلہ سیٹ کا اسی مریض کو ہو گیا تو پتہ چلے گا‘ تین لاکھ کا ہے‘ خرچہ پانچ لاکھ‘ دو لاکھ نقد لگالو۔ حکومت نے یہ سب انڈسٹری کے فروغ کے لیے کیا ہے۔ زیر نظر انڈسٹری مسیحائی کی صنعت ہے۔ مسیحائی اور تعلیم دونوں خدمات کے دائرے میں آتے تھے۔ مرشد اول پرویز مشرف نے دونوں کو صنعت بنا دیا اور صنعت بھی لگژری آئٹمز والی تحریک انصاف کے دور میں بس یہی صنعتیں پھل پھول رہی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ عالمی ریکنگ میں گرتے گرتے اب تقریباً دوسرے کنارے پر پہنچ چکا ہے یعنی صرف تین ممالک کے پاسپورٹ ہم سے بھی نیچے رہ گئے ہیں اور وہ ہیں افغانستان‘ شام اور عراق۔ اس پر لوگ وہ وعدہ یاد دلا رہے ہیں۔ سبز پاسپورٹ کو عزت دلوائوں گا۔ ارے بھی پہلے 200 ارب واپس لانے کا وعدہ تو پورا ہو جائے۔ طعنہ زن حضرات کی طعنہ زنی اس وقت منہ کے بل آ گرے گی جب فواد چودھری یا شبلی فراز جیسے مدبر ریکنگ والے کاغذ کوالٹی سمت سے پکڑ کر لہرائیں گے۔ اوپر اور اوپر والا نیچے آ جائے گا۔ ساتھ ہی رینکنگ بدل جائے گی کہ صرف ان تین ممالک کے پاسپورٹ ہم سے اوپر ہیں‘ باقی سب کے نیچے ہیں۔