پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی افراد کی ان کے وطن واپسی کا معاملہ بھی ، دیگر معاملات کی طرح ، افراط و تفریط کا شکار ہو رہا ہے۔اس ماحول میں ، مناسب ہو گا کہ اس معاملے کو اپنی پسند اور نا پسند پر نہیں ، بلکہ دنیا کے مسلمہ قوانین کی روشنی میں دیکھا اور پرکھا جائے اور پھر فیصلہ کیا جائے کہ درست کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ مہاجرین اور تارکین وطن کے بارے میں جتنے بھی قوانین ہیں و ہ کچھ بنیادی اصولوں کے تابع ہیں۔ یہ بنیادی اصول اقوام متحدہ نے مختلف اوقات میں طے کیے ہیں۔ان میں سے سے کچھ وہ ہیں جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بنائے اور کچھ مبادیات وہ ہیں جو اس سے بھی پہلے لیگ آف نیشنز طے کر چکی تھی۔ سب سے اہم ضابطہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے5 نومبر1946 کو Constitution of the International Refugee Organization پاس کر کے وضع کیا۔ اس میں کچھ بنیادی اصول طے کر دیے۔ اور بتا دیا گیا کہ اگر دنیا میں سے کسی علاقے سے لوگوں کو کسی وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑ کر نکلنا پڑے تو ان تارکین وطن کے ساتھ معاملہ کیسے کیا جائے گا اور کن اصولوں کی بنیاد پر کیا جائے گا۔اسی طرح 1947 میں بنیادی طور اسی مسئلے سے پھوٹتے معاملات کو دیکھنے اور حل تجویز کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے ایک سب کمیٹی بنائی جس نے اس پر غور کیا ، بحث کی اور اپنی سفارشات جنرل اسمبلی کو پیش کیں۔ اس سے کچھ عشرے پہلے لیگ آف نیشنز بھی اس معاملے پر کچھ اصول وضع کر چکی تھی۔ لیگ آف نیشنز اور پھراقوام متحدہ کے بنیادی ضابطے ہی آگے کی ساری قانون سازی کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔اس لیے ہمیں اختصار کے ساتھ دیکھ لینا چاہیے کہ ان بنیادی اصولوں میں کیا رہ نمائی فراہم کی گئی ہے۔ ۱۔ پہلا اصول یہ طے کیا گیا کہ تارکین وطن کا مسئلہ پوری عالمی برادری کا مسئلہ ہے اور انہیں ایسے ہی نہیں چھوڑا جا سکتا۔2۔ دوسرا اصول یہ تھا کہ ان کی جلد از جلد واپسی کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 3۔تیسرا اصول یہ تھا کہ ساری دنیا مل کر یہ کوشش کرے گی کہ ان تارکین کو جلد از جلد ان کے اصل ملک واپس بھیجا جائے ۔یعنی وہ جہاں سے نکلے ، جن وجوہات سے بھی نکلے، دنیاکی یہ ذمہ داری ہے کہ و ہ انہیں انکے ملک واپس بھیجے۔ Constitution of the International Refugee Organization میں لکھا ہے: The main task to be performed is to encourage and asisst in every way possible their early return to their country of origin. 4۔ایمر جنسی کی صورت حال ختم ہونے کے بعد یا موزوں حالات پیداہونے کے بعد تارکین وطن اپنے اصل وطن بھیج دیے جائیں گے۔5۔ کسی ملک کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ و ہ تارکین وطن کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنے پاس رکھے۔6۔ ہر ملک میں تارکین وطن کی تعداد کا تعین اس ملک کی معاشی حالت دیکھ کر ہی کیا جائے گا۔7۔ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کون سا ملک کتنے تارکین وطن کو اپنے ہاں رکھنے کی استطاعت رکھتا ہے۔8۔کسی ملک سے نکلنے والے مہاجرین اور تارکین وطن صرف پڑوسیوں کامسئلہ نہیں ساری دنیا کا ہیں۔ ان بنیادی اصولوں کے بعد جو قانون سازی ہوتی رہی اس کی اہمیت بھی مسلمہ ہے تاہم اس قانون سازی کی جورسپروڈنس ان اصولوں میں ہی تلاش کی جائے گی۔پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور سب سے زیادہ تعداد میں دی جس طرح پاکستان نے اپنے ان بھائیوں کو خوش آمدید کہا کسی اور ملک نے نہیں کہا۔ ایران میں بھی افغان پناہ گزین گئے لیکن ایران نے انہیں کیمپوں تک محدود رکھا جب کہ پاکستان نے ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیا اور معاشرے نے اپنی بانہیں کھول کر انہیں یوں خوش آمدید کہا کہ وہ اس ملک میں جب جہاں اور جدھر جانا اور کاروبار کرنا چاہتے تھے ان کو آزادی تھی۔ مہاجرین کے قیام کا دورانیہ بھی غیر معمولی ہے۔ چالیس پچاس سال کے بعد بھی کیا پاکستان کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے کہہ سکے کہ اب آپ اپنے وطن واپس تشریف لے جائیے۔پاکستان نے تمام مہاجرین کو جانے کا نہیں کہا ، صرف ان کو جانے کا کہا ہے جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں، اس میں کیا غلط ہے؟افغانستان کا مسئلہ پاکستان کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ پہلے یہ سوویت جارحیت سے پیدا ہونے والا مسئلہ تھا اس کے بعد امریکی جارحیت سے۔ ایسے میں اگر مہاجرین واپس جانا نہیں چاہتے تو پھر اقوام متحدہ کے اصول کے تحت تارکین وطن کی تعداد گن لی جائے اور اقوام متحدہ کے تمام اراکین ممالک پر تقسیم کر دی جائے اور ان کو بتا دیا جائے کہ ہر ملک کے حصے میں اتنے تارکین وطن آتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہیں مہذب اقوام کیا کرتی ہیں۔ پاکستان کے مسائل بھی سب کے سامنے ہیں۔ انتظامی مسائل بھی ہیں ،امن عامہ کے مسائل بھی ہیں اور معاشی مسائل بھی کم نہیں۔ پاکستان اس وقت پراکسی کا میدان بنا ہوا ہے۔ خطے میں معاشی صف بندی کچھ قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی اور ان کی پراکسی کا مرکز پاکستان ہے۔ ایسے میں پاکستان اگر سمجھتا ہے کہ اب غیر قانونی تارکین وطن کو واپس اپنے اپنے ملک بھیج دینا چاہیے تو اس میں ایسا کیا غلط ہے؟ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ دنیا میں تارکین وطن کے ساتھ کیسے معاملہ کیا جاتا ہے؟ کسی ملک میں کیا اتنے طویل دورانیے کے لئے تارکین وطن کو رکھا جاتا ہے؟َ انہیں واپس بھیجنا ہو تو ٹائم فریم بالعموم کتنے دنوں کا دیا جاتا ہے؟ کیا پاکستان نے اس ٹائم فریم سے زیادہ کی مہلت نہیں دی؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی واپسی کا عمل اس سے بہتر انداز میںہو سکتا تھا ۔یہ بھی درست ہے کہ پولیس کے رویے کی بہت سی شکایات ہیں۔ لیکن کیا پولیس کا یہ رویہ خود پاکستان کے شہریوں کے ساتھ بھی ایسا ہی نہیں رہتا؟ پولیس کے رویے کا جواز یقینا پیش نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کی بنیاد پر دو پڑوسی ممالک کے برادرانہ تعلقات داو پر لگانا بھی مناسب رویہ نہیں ہے۔پاکستان کے خلاف ایک مہم سی چل پڑی ہے جس کی رو میں اپنے پرائے سب بہے چلے جا رہے ہیں۔ اس رو میں توازن قائم رکھنا لوگوں کیلئے مشکل ہو رہا ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ تارکین وطن کوواپس بھجوانا پاکستان کا قانونی حق ہے۔ اس کی وجوہات بھی قابل فہم ہیں۔ ہاں اس کاطریقہ کار اس سے بہتر ہو سکتا تھا لیکن طریق کار کے بھی صرف ایک پہلو پر فوکس کیا جا رہا ہے۔ یہ مناظر بھی تو دیکھے گئے کہ الخدمت جیسی تنظیموں نے جانیوالے بھائیوں کے لیے طعام کا بندو بست کیا۔ شکوے سر آنکھوں پر لیکن کوئی تو اس سب کے لیے شکریے کے دو لفظ بھی کہہ دیتا۔ صرف تنقید برائے تنقید ہی کیوں؟