کورونا وائرس کے عذاب اور سانحہ کراچی کے غم میں یوم عید گزر گیا ، غریب طبقات کو عید کی خوشیاں نصیب نہ ہو سکیں ۔ کورونا لاک ڈاؤن کے بہت سے متاثرین کو امداد نہ مل سکی۔ صوبائی حکومت کی طرف سے فنکاروں کو عیدسے پہلے خصوصی پیکیج کا اعلان ہوا تھا ، بد قسمتی سے عمل درآمد نہ ہو سکا ۔ عید کے موقع پر حادثات اور لڑائی جھگڑوں میں بہت سی اموات نے اہل وطن کو رنجیدہ کیا ۔پسماندہ اور محروم طبقات کی عید بھی نہ ہوسکی ۔ محرومی حق تلفیوں اور بد عنوانیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے ، اسی بناء پر عید کے دوسرے دن صدر عارف علوی کی نجی ٹی وی سے گفتگو خاص اہمیت کی حامل ہے ، جس میں ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ بد عنوانی کا بھی کردار رہا ہے ۔ دوسرے پسماندہ علاقوں کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ عید کے دوسرے دن خانپور کے نواحی علاقے میں سرائیکی صوبہ محاذ کی طرف سے جلسہ ہوا تو لوگوں کا جم غفیر امڈ آیا اور انہوں نے حکمرانوں کی وعدہ خلافیوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا ۔ اگر ہم تاریخ پر غور کریں تو قبل از اسلام عرب کے لوگ سال میں خوشی کے دو تہوار مناتے تھے ، ان میں سے ایک کا نام ’’ عکاظ ‘‘ اور دوسرے کا نام ’’ محنہ ‘‘ تھا۔ یہ تہوار ایک میلے کی شکل میں ہوتے تھے اور عرب ثقافت میں ان کا بھرپور اظہار ہوتا تھا ۔ سرکار دو عالم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے پوچھا خوشی کے ان دنوں میں آپ کیا کرتے ہیں تو عرض کیا گیا ہم کھیلتے ہیں، کودتے ہیں ‘نئے کپڑے پہنتے ہیں اور کھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ان دونوں دنوں کے بدلے دو عیدین دی جاتی ہیں۔ چنانچہ ۲؁ھ سے عید الفطر کا آغاز ہوا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سرکار مدینہؐ نے اہل مدینہ کی ثقافتی تفریح کا نہ صرف خیال رکھا ، بلکہ اس سے کہیں بہتر اسلامی ثقافتی تہوار دیئے اور اس بات خصوصی اہتمام فرمایا کہ یتیم مسکین اور غریب بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوں ۔ بزرگ کہتے ہیں کہ عید پر پانچ چیزوں کا اہتمام ضروری ہے ۔نہا دھو کر صاف ستھرا لباس پہننا، گھر میں اچھا طعام پکانا، خوشبو لگانا، معانقہ کرنا اور مسکراہٹیں بکھیرنا، بزرگوں اور غمزدہ لوگوں کے پاس خود چل کر جانا۔ آج بھی وسیب کی سندھ اور بلوچستان کی تہذیبی ، ثقافتی ،جغرافیائی اور تاریخی سانجھ موجود ہے ۔ عید جو خوشیوں کا نام ہے ، خوشبوؤں کا نام ہے ،آرزؤں اور تمناؤں کانام ہے۔ ایک دوسرے ملنے اور ایک دوسرے سے محبت کا نام ہے تو ضروری ہے کہ حکومت غمزدوں کو خوشیوں میں شریک کرے ۔ عید کے بہت سے فرائض اور لوازمات ہیں ، صرف نئے کپڑے پہننے کا نام عید نہیں۔ ’’ بچے جیتے رہو ‘‘ جیسے میٹھے بول سے ہم غریب کے بچے کو عید کی خوشیوں میں شریک کر سکتے ہیں ۔ غریب اور پڑوسی ، بے سہارا، نادار اور یتیم ہمسائے کا ہم خیال رکھیں تو عید کی خوشی حقیقی خوشی ہو سکتی ہے اور ہر ضرورت مند کو ہر پل خیال رکھیں تو ہر پل عید کا پل ہو سکتا ہے ۔ دکھاوے اور رسمی رکھ رکھاؤ کی نہیں عید پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے ، کیا اس طرف توجہ ہو گی ؟کورونا کے عذاب کے باوجود بازاروں میں شاپنگ کا رش لگا ہوا ہے، اگر امراء شاپنگ کا صرف پانچ فیصد بھی غریبوں کو دیدیتے تو غریبوں کی عید ہو جاتی، کہا جاتا ہے کہ عید خوشی کا نام ہے اور خوشی احساس کا نام ہے۔احساس یہ ہے کہ سرکار آقائے نامدار ؐعید پڑھنے جا رہے ہیں ‘ ایک ہاتھ کی انگلی کو پیارے نواسے حسین اور دوسری کو حسن نے تھاما ہوا ہے ‘ راستے میں میل کچیلے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس بچہ رو رہاہے ‘ آپ فوراً رُک جاتے ہیں ‘ بچے کو گودمیں لیکر پیار کرتے ہیں ‘ رونے کا ماجراء پوچھتے ہیں ‘ بچہ کپکپاتے ہونٹوں کوجنبش دیکر کہتا ہے میں یتیم ہوں‘ آپ کی آنکھوں میں آنسورواں ہو جاتے ہیں ‘ آپ عید گاہ نہیں جاتے‘ واپس گھر تشریف لاتے ہیں ‘بچے کو نہلاتے ہیں نئے کپڑے پہناتے ہیں ‘ بہت زیادہ پیار کرتے ہیں اور اس وقت تک نماز ادا نہیں فرماتے جب تک رونے والا بچہ مسکرایا نہیں؟ امراء کیلئے ہر دن روز عید ہے ‘ غریب آج بھی غریب تر اور امیر آج بھی امیر تر ہو رہاہے ‘ خوراک کے گودام بھرے ہیں مگر غریب کا پیٹ خالی ہے ‘ پوری دنیا میں رائج طبقاتی سسٹم میں کائنات کے امن و سکون کو برباد کر کے رکھ دیا ہے ‘ سندھی کے عظیم شاعر شاہ عبد الطیف بھٹائی سئیں کے ایک شعر اس طرح ہے کہ ’’بکھ بچھڑو ٹول‘ دانا نہ دانا کرے‘‘ یعنی بھوک ایسا ظالم لشکر ہے جو سمجھدار کو پاگل بنا دیتا ہے ۔ بھوک کی وجہ سے ہمارے ہاں چور ڈاکو سے بڑھ کر دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں ‘ اور بھوک سے خود کشیاں تو اپنی جگہ رہیں لوگ خود کشوں کے پاس جا رہے ہیں ‘ اس تمام صورت حال کے ذمہ دار امریکہ یورپ اور ہمارے ملک کے لٹیرے گروہ بھی ہیں جو بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف جہاد بھی کر رہے ہیں اور اپنے نا پسندیدہ کرتوتوں سے خود ہی اس کا باعث ہیں ‘ لیکن ہر بڑے ظلم کے بعد ایک انقلاب آتا ہے اور اب جو انقلاب آئے گا اس میں غربت یا غریب میں سے ایک چیز باقی رہے گی ۔ دوسرے مذاہب کی عیدین پر مختلف صورتحال نظر آتی ہے جیسا کہ کرسمس پر پورے یورپ میں اشیائے ضرورت کے نرخ کم کر دیئے جاتے ہیں ہمارے ہاں رمضان شریف کے شروع ہوتے ہی اشیائے ضرورت کے نرخ آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح عیدی کے سلسلے میں عام پولیس اور ٹریفک پولیس بھی حرکت میں آجاتی ہے اور وہ تمام کام چھوڑ کر عیدی کے نام پر غریبوں کو پریشان کیا جاتا ہے اور چالان کے نام پر جگہ جگہ پولیس کے ناکے لگ جاتے ہیں۔ عید پر عیدی بنانے کیلئے رسہ گیر بھی حرکت میں آجاتے ہیں اور دیہاتوں میں چوری ، ڈاکے اور جیب تراشی کی وارداتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ، یہ تمام نزلہ صرف اور صرف غریبوں پر گرتا ہے جو پہلے ہی معاشرے کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں کیا یہ سماج کبھی بدلے گا؟ کیا غریب کو آسودگی اور عزت نفس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے مواقع میسر ہوں گے؟ یا پھر وہ سدا کیلئے صدمات سے دو چار رہے گا؟ یہ سوالات ہیں جن پر عید کے موقع پر حکمرانوں ‘ جاگیرداروں‘ سرمایہ داروں‘ سجاد گان و علماء کرام کو جواب دینا چاہئے۔