فلسطین کاجانباز ارض فلسطین کی آزادی کا علم لیکر بدترین دہشت گرد اسرائیل کی غنڈہ گردی کو للکارے ہوئے ہے۔ قبلہ اول اور سرزمین انبیاء کی بازیابی کے لئے اس نے اپنا سینہ آگے کردیا اور مادیت کے بجائے وہ رضائے رب العالمین پر دار ومدار رکھ کریہودی صہیونیت کاانکارکرتے ہوئے ڈٹا ہوا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس آج اس کے ساتھ کوئی کھڑا ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔ آج اقبال زندہ ہوتے توعربوں کی اسرائیل کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے اورفلسطینیوں کی حالت زار پرایک طویل نوحہ لکھتے اورزار وقطار روتے ۔ دانائے راز،مفکر ملت حضرت علامہ اقبالؒ کی بصیرت عربوں کی صورت حال کو بے پردہ دیکھ رہی تھی اور غیرت دلا رہی تھی۔انہیں اس کا شکوہ تھا کہ امیر عرب صرف نام و نسب کا حجازی رہ گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ نہ حجازی رہا اور نہ غازی۔ یہی شیخ حرم ہے جو گلیمِ بوذر اور چادرِ زہرا کو بیچ کھاتا ہے۔انہوں نے امت عربیہ کے ضمیر کو بھی للکارا تھا اور انگریزوں کی فسوں ساز منصوبے سے باخبر رہنے کی تاکید بھی کی تھی۔1923ء میں ہاشمیوں کے ہاتھوں ناموس دین مصطفی کا سر بازار بکنا اقبال کو گوارا نہ تھا۔ ان کا یہ قول ضرب المثل بن گیا: بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی افسوس کہ سرزمین عرب کے حکمران اقبال کے فیض نظر سے محروم رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آج عرب کے حکمران سرائیل کے سامنے ڈھیرہوچکے ہیں جبکہ عجم کے مسلم ممالک پرمسلط حکمران روتے چیختے فلسطینی بچوں کی آوازوں کے عادی ہوچکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ غزہ پراسرائیلی جارحیت پر ان کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی ۔ مسلمانوں کو ذلیل و خوار کر کے غلامی کی زنجیر پہنا دی جائے، اسے اسیر بنا دیا جائے، اور سب کے سب یہود نواز بنتے ہوئے اپنے ہی ممالک کو ان کے سپرد کر بیٹھیں، بار الہا!! یہ نادان سمجھتے ہیں کہ یہودی ان کے دوست اور قریبی ہیں، انہیں مستحکم حکومت میں مدد کریں گے؟ جان لیں کہ وہ دن دور نہیں جب ان کی گردنوں پر یہودیوں کی تلوار ہوگی،۔ زندگی کو ترسیں گے جس طرح اہل فلسطین کی سانسیں اٹکی ہوئی ہیں۔ ویسے بھی اسرائیل مصر اور اردن کی سرحدوں میں گھس چکا ہے، دیر نہیں کہ گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہو اور پورا عربستان ان کے زیر آجائے، آج اگر فلسطینی نوجوان اپنی بلند ہمتی اور ایمانی جوش سے اسرائیل کی بربریت اوراس کی جارحیت کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن بقیہ عرب تو اس کی بھی قدرت نہیں رکھتے۔ 6 اگست 2022ء ہفتے کوسفاک اسرائیل کی جانب سے غزہ پرشروع کئے جانے والے حملوںمیں تا دم تحریر24 فلسطینی کلمہ خواں شہید جبکہ 200 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔مقامی وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ شہید ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیل نے علیٰ الاعلان کہہ دیا کہ غزہ پرحملے جاری رہیں گے۔ اس کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ عرب حکمرانوں کی دوستی کافائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینیوں کاخاتمہ کرنے پرتلاہوا ہے ۔آج سے ایک سال قبل 10 مئی سے 21 مئی تک اسرائیل نے غزہ پر حملے کر کے اسے کھنڈر بنا ڈالا تھا اسرائیل کے تازہ حملوں اوراسکی دھمکی سے اس امر کے بلیغ اشارے مل رہے ہیں کہ وہ گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی غزہ پرلگاتار حملے کرکے غزہ کی بچی کچی بستی کو تہہ وبالا کرنے کا ناپاک منصوبہ تیارکرچکا ہے ۔ گذشتہ برس 11روزتک اسرائیل نے غزہ پر ا سرائیلی جارحیت اور وحشیانہ بمباری سے دو ملین یعنی 20 لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل غزہ پٹی میں کمرشل عمارتیں، رہائشی فلیٹس اور گھر ملبے کا ڈھیر بنا دئیے تھے ۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کے مطابق اسرائیل کی بمباری میں17 ہزار آٹھ سو گھروں کوشدید نقصان پہنچا جبکہ غزہ کی وزارت برائے ہاؤسنگ کے سیکریٹری ناجی سرحان کے مطابق کم ازکم2000 عمارتیں ملبے کاڈھیربنا دی گئی تھیں۔ ان میں 18سو ایسے ہیں جو رہائش کے قابل نہیں رہے ، ایک ہزار گھر ایسے تھے جو مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکے تھے جبکہ 53 تعلیمی ادارے6 ہسپتال اور11بنیادی مراکز صحت بھی تباہ کر دیئے گئے۔4 مساجدشہید جبکہ غزہ کی لوکل پولیس کے دسیوں مراکز بھی تباہ ہوگئے تھے ۔ اسرائیل کی بمباری سے غزہ کا آب رسائی کا نظام 50 فیصد ناکارہ ہوچکا تھا۔ غزہ کے طبی عملے کے مطابق250 افراد اسرائیلی بمباری سے شہید ہوئے جن میں سے 66 کم سن بچے شامل تھے جبکہ 2000ء سے زائدزخمی تھے۔ 10 لاکھ فلسطینی اسرائیل کی جارحیت سے متاثر ہوچکے تھے۔ مالی نقصان پرجورپورٹ سامنے آئی تھی اس کے مطابق اسرائیلی جارحیت سے غزہ میں کم ازکم 15کروڑ ڈالرکا مالی نقصان ہواتھا۔ اس بار پھر اسرائیل غزہ کے ساتھ اسی طرح کی سفاکیت جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ اس کے دہشتگردانہ حملوں پرعرب حکمرانوں کی تائید سکوتی اسے حاصل ہے ۔ غزہ کی آبادی تقریبا ً 20 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور اس علاقے کی لمبائی صرف41 کلومیٹر جبکہ چوڑائی صرف10 کلومیٹر ہے۔ اس کی اطراف بحیرہ روم، اسرائیل اور مصر سے منسلک ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق لگ بھگ 6 لاکھ فلسطینی جنہیں یہود نے اپنے زیرقبضہ علاقے سے بے دخل کردیا ہے بطور مہاجرین غزہ کے8 پرہجوم کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔دنیا کے چھوٹے شہروں میںاوسطاً فی مربع کلومیٹر میں7سو سے زیادہ افراد مقیم ہیں لیکن غزہ شہر میں9 ہزار سے زیادہ لوگ مقیم ہیں ۔ مصراورغزہ کے درمیان رفح کامقام سرحدکہلاتاہے جبکہ اسرائیل اورغزہ کے مابین ایریزکا مقام سرحد مانی جاتی ہے ۔ غزہ اسرائیل کی بدترین جارحیت کا ہدف رہا ہے اور اسرائیل کی طرف سے غزہ پر موقع بہ موقع کی جانے بمباری سے اسرائیل باز نہیںآتا ۔ 2008ء اور2009ء میں اسرائیل نے فلسطینیوں پر چوہوں اور خرگوشوں کی طرح کثیف غیرعامل دھاتی دھماکا خیز مواد کا تجربہ کیا ہے اور اس جارحیت کے پہلے ہی دن 500 فلسطینیوں کو شہیدکیا گیا اور جارحیت کے12 دن بعد یہ تعداد1000 نفوس کے قتل عام سے بڑھ گئی۔ 2014ء کی اسرائیلی جارحیت سے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور سینکڑوں فلسطینی شہید کردیئے گئے۔ المختصراہل فلسطین پرکوئی سال ایسا نہیں گزرتا کہ جب انہیں اسرائیلی جارحیت اوراس کی سفاکیت کاسامنا نہیں ہوتا۔