اگلے روزخیبر پختونخواہ کے ضلع جنوبی وزیرستان‘ تحصیل شکتو کے ایک علاقہ میں سولہ اور اٹھارہ برس کی دو رشتہ دارلڑکیوں کومبینہ طور پر فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔ اس واقعہ سے چند دن پہلے انکی پچاس سیکنڈ کی ایسی ویڈیومنظر عام پر آئی تھی جو قابل اعتراض سمجھی گئی ۔ پولیس نے ایک لڑکی کے بھائی اور دوسری لڑکی کے والد کوغیرت کے نام پر قتل میں ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتار کرلیاہے۔ بتایا جاتا ہے کہ لڑکیوں کی مبینہ نامناسب ویڈیودیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ان لڑکیوں کو ڈرا دھمکا کر‘ ہراساں کرکے یہ فلم بنائی گئی ہے۔کم عمر لڑکیوں کے چہروں پر خوف ہے‘ایک لڑکی کوشش کررہی ہے کہ اسکی ویڈیو نہ بنائی جائے۔تاہم حالات و واقعات کی مکمل چھان بین کیے بغیر ان لڑکیوں کے قریبی رشتے داروں نے ان کاقصہ تمام کردیا۔ جنوبی وزیرستان میں پیش آنے والا یہ دلخراش واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا قتل نہیں ہے۔ ہمارے ملک کے مختلف علاقوں میںآئے روزغیرت کے نام پر ایسے بہیمانہ واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ہر سال پاکستانی مردوں کی غیرت کم و بیش ایک ہزار خواتین کی زندگی چھین لیتی ہے۔ ان خواتین کی عصمت پر تہمت لگا کر ان کے بھائی‘ باپ یا شوہر انہیں قتل کردیتے ہیں۔ وہ خود ہی مدعی ہوتے ہیں اور خود ہی منصف۔ اسلام میں نکاح ایک پسندیدہ عمل ہے لیکن ہمارے بعض علاقوں میں بالغ مرد اور عورت اپنی مرضی سے نکاح کرلیں تو ایک قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ بعض صورتوں میں جوڑے کویا ان میں سے کسی ایک کو قتل کردیا جاتا ہے۔ ایسے درجنوں واقعات ہیں جن میں ماں باپ نے اپنی لڑکی کو کرنٹ یا آگ لگا کر اس لیے مار ڈالا کہ وہ اپنی مرضی کی شادی کرنا چاہتی تھی یا کرچکی تھی۔ چند ماہ پہلے خبر آئی تھی کہ راولپنڈی کے علاقہ منڈی موڑ میں ایک شخص کو مبینہ طور پر اسکے سسر نے قتل کردیا۔مقتول کا تعلق خیبر پختونخواہ کے ضلع باجوڑماموند سے تھا۔ اُس نے اپنی پسند سے شادی کرلی تھی۔ بیوہ عورت اب تک راولپنڈی پولیس کی تحویل میں ہے کیونکہ اسکے والدین اُسے واپس لے جانے پر تیار نہیں۔ یہ انکی غیرت کے خلاف ہے۔بعض علاقوں میں مردوں کی غیرت اتنی نازک ہے کہ ان کی لڑکیاں گانا بھی گائیں تو قابل گردن زدنی قرار پاتی ہیں۔ سنہ دو ہزار گیارہ کی بات ہے خیبر پختونخواہ کے علاقہ کوہستان میں چار لڑکیوں کو صرف اس لیے قتل کردیا گیا تھا کہ ایک ویڈیو سامنے آئی جس میںوہ لڑکیاں شادی کا گانا گا رہی ہیں جبکہ چار لڑکے اس گانے پر رقص کررہے ہیں۔ اس وقت ان لڑکیوں کے والدین نے سزا سے بچنے کے لیے یہ جھوٹا دعوی کیا تھا کہ وہ لڑکیاں تو زندہ ہیں۔تاہم کچھ عرصہ بعد حقائق واضح ہوگئے کہ لڑکیوں کو غیرت کے نام پرموت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ جس لڑکے افضل کوہستانی نے انکے قتل کردیے جانے کی اطلاع نشر کی تھی سات سال بعد اسے بھی اسکے بھائیوں سمیت قتل کردیا گیا تھا۔لڑکیوں اور لڑکوں کے قتل میں ملوث اس بھیانک جرم میں آج تک کسی کو سزا نہیں ملی۔ ملزم ہائی کورٹ سے بری ہوگئے۔ جب جرم کرنے پر سزا ہونے کا ڈر نہ ہو تو لوگ د یدہ دلیری تو دکھائیں گے۔ غیرت کے نام پر قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو روکنے کی خاطر حالیہ برسوں میںپارلیمان نے دو مرتبہ قوانین بنائے۔ ایک تو دو ہزار پانچ میںدیت اور قصاص کے قانون میں ترمیم کی گئی جس کے تحت اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ قتل کی جانے والی لڑکی کا وارث مجرم کوخون معاف نہ کرسکے لیکن ان ترامیم کے باوجود عدالتوں کے فیصلے دیت کے حق میں آتے رہے۔ بھائی نے قتل کیا تو باپ نے عورت کے وارث کے طور پر ملزم بیٹے کو معاف کردیا ۔ دو ہزار سولہ میں اس قانون کو مزید سخت بنایا گیا کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی عورت کا وارث صرف موت کی سزا معاف کرسکتا ہے وہ بھی اتنی کہ اسے عمر قید میں تبدیل کردیا جائے‘ مجرم کو سزا بہرحال ملے گی۔ مسئلہ قانون پر عمل درآمد کا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بعض علاقے ایسے ہیں جہاں غیرت کے نام پر کسی لڑکی یا عورت کے قتل کو معاشرہ کے لوگ جرم نہیں سمجھتے بلکہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔پولیس مقدمہ در ج بھی کرلے تو گواہ دستیاب نہیں ہوتے ۔یُوں بھی پولیس میں بددیانتی اتنی عام ہے کہ وہ عموماً رشوت لے کرتفتیش خراب کردیتی ہے۔ مقدمہ کے چالان میں اتنے جھول ڈال دیے جاتے ہیں کہ ملزم بچ نکلتے ہیں۔کوہستان واقعہ میں مجرموں کا کیفر کردار تک نہ پہنچا اسکی ایک بڑی مثال ہے۔غیرت کے نام پر قتل کی بڑھتی ہوئی وارتیں ہمارے نظام انصاف کے غیر موثر ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔اگر کسی خاتون کے کردار‘ طرز عمل کے بارے میں کوئی شکایت ہے تو اس کے خلاف قانون اور انصاف کے نظام کے تحت کاروائی کی جانی چاہیے۔ کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی عورت پر کوئی الزام لگا کر اس کو بہیمانہ طور پر قتل کردے۔ تاہم عورتوں پر تشدد‘ انکا غیرت کے نام پر قتل بنیادی طور پر ایک سماجی مسئلہ ہے‘ معاشرتی اقدار کا معاملہ ہے‘لوگوں کے طرز ِفکر سے جنم لیتا ہے۔ ہماے معاشرہ میں بڑا طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو عورت کومرد کے مساوی انسان نہیں سمجھتا۔ اسے کم تر سمجھتا ہے۔ عورت کومرد کی ایک پراپرٹی سمجھتا ہے۔اس ذہنی روّیہ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے علمائے کرام اور تعلیم یافتہ طبقہ کولوگوں کی اصلاح کے لیے موثرتحریک چلانے کی ضرورت ہے۔اس وقت افراط و تفریط کا عالم ہے۔ قدامت پسند لوگ ہیں جو صدیوں پرانے رسم و رواج اور روایات کو چھوڑنا نہیں چاہتے‘ ہر تبدیلی کے مخالف ہیں۔ دوسری طرف چھوٹا سا گروہ مغرب پسندخواتین کا ہے جواسلامی تعلیمات اور احکامات سے مکمل آزادی چاہتی ہیں۔ ملک میں ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو اسلام کے دائرہ میں رہتے ہوئے عورتوں کے حقوق‘ انکے احترام کا شعور عام کرے‘ غیرت کے نام پر جاری تشدد اور بربریت کا سدباب کرے۔