پشاور ہائیکورٹ نے گردوں کی غیرقانونی پیوندکاری کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے ہیلتھ کیئرکمیشن کے نمائندوں کے عدالت میں پیش ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر ہیلتھ کیئر کمیشن غیر فعال ہو گیا ہے تو کیوںنہ اسے ختم کر دیا جائے۔ عدالت عالیہ نے کہا کہ نجی ہسپتالوں اور کلینکوں میں غریب مریضوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ عدالت نے صوبہ بھر میں غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈلیبارٹریوں، ہسپتالوں اور کلینکوں کے خلاف کارروائیوں کا دائرہ وسیع کرنے کا حکم دیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک بھر میں نجی ہسپتال اور کلینکس مشروم کی طرح پھیلے ہوئے ہیں اور ملک کا غریب اور کم آمدنی والا طبقہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کے فقدان کے باعث نجی ہسپتالوں سے علاج کرانے پر مجبور ہے، جہاں لوگوں سے من مانی فیسیں اور اخراجات وصول کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر نجی ہسپتال اور کلینکس ایسے ہیں جو رجسٹرڈ نہیں ہیں اور غیر قانونی طور پر کام کر رہے ہیں۔ ایسے غیرقانونی نجی ہسپتالوں کی چیکنگ کا نظام بظاہر غیر فعال ہو چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام صوبوں میں نہ صرف ہیلتھ کیئر کمیشن کو فعال بنایا جائے بلکہ غیر قانونی طور پر کام کرنے والے نجی ہسپتالوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ وفاقی و صوبائی سطح پر کوئی ایسا لائحہ عمل تشکیل دیا جائے جس سے غیرقانونی نجی ہسپتالوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے اور غریب عوام کو ان نام نہادمسیحائوں کے ہاتھوں لٹنے سے بچایا جا سکے۔ دوسرے سرکاری ہسپتالوں کو نجی شعبے میں دینے کی بجائے وفاقی و صوبائی سطح پر ان کے لئے خصوصی گرانٹس مختص کی جائیں تاکہ کم آمدنی اور متوسط طبقے کے لوگ سرکاری ہسپتالوں سے اپنا علاج کرا سکیں۔